عارف وقار
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور

صبیحہ اور سنتوش

صبیحہ اور سنتوش: پاکستان کا پہلا کامیاب فلمی جوڑہ

تقسیم کے وقت موجودہ پاکستان کے علاقے میں فلم سازی کا واحد مرکز لاہور تھا جہاں بیس بچیس برس سے فلمیں بن رہی تھیں۔

یہاں فلم سازی کا آغاز ایک نوجوان فوٹو گرافر عبدالرشید کاردار اور اسکے مصور دوست ایم اسماعیل نے محض شوقیہ طور پر کیا تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے لاہور کی انڈسٹری اپنے پیروں پہ کھڑی ہوگئی کیونکہ بمبئی اور کلکتے کے مقابلے میں یہاں فلم بہت سستی بن جاتی تھی۔

قیامِ پاکستان کے وقت لاہور میں اگرچہ چھ فلم سٹوڈیو موجود تھے لیکن فسادات کی وجہ سے فلم سازی کا کاروبار درہم برہم ہو چکا تھا اور غیرمسلم فنکاروں اور تکنیکی ماہروں کی اکثریت نقلِ وطن کر کے بھارت چلی گئی تھی لیکن دیوان سرداری لال کو دہلی جانا راس نہ آیا کیونکہ اُن کی ساری عمر لاہور میں گُزری تھی، چنانچہ وہ لاہور واپس آگئے۔ انہوں نے پنچولی کے متروکہ سٹوڈیو پر قابض ہونے کے لئے خود کو ایک فلم ساز ثابت کرنے کی ٹھانی اور راتوں رات ایک فلم کا اعلان کردیا۔ بہت بھگدڑ میں بنی ہوئی یہ فلم ’تیری یاد‘ کے نام سے سات اگست 1948 کو ریلیز ہوئی۔ اس کے ڈائریکٹر داؤد چاند تھے جو کہ بعد میں چربہ سازی کے مُوسس بھی ثابت ہوئے۔

پاکستان کی پہلی فلم ہر لحاظ سے ہماری فلمی صنعت کے نام پر بٹّا تھی۔ اسکا ہیرو ناصر خان صرف یہ دیکھنے کےلئے بمبئی سے لاہور آیا تھا کہ اگر بھائی جان (دلیپ کمار) پاکستان آجائیں تو یہاں کامیابی کے امکانات کتنے روشن ہیں۔

پروڈیوسر کو صرف فلم سازوں کی فہرست میں شامل ہونے کا شوق تھا تاکہ وہ ایک سٹوڈیو پر قبضہ کرنے کا قانونی طور پر اہل ثابت ہوسکے۔ ہدایتکار بھی اسکے اشاروں پر ناچ رہا تھا اور محض پہل کرنے کے شوق میں اس نے نامکمل فلم کی ریلیں آگے پیچھے جوڑ کر نمائش کےلئے پیش کردی تھیں۔

سن ساٹھ کی دہائی میں ڈھاکہ اُردو فلموں کا ایک بڑا مرکز بن چُکا تھا

پاکستانی فلم انڈسٹری کی عمارت میں لگی ہوئی اس پہلی مگر ٹیڑھی اینٹ کے شاخسانے آج تک دیکھے جاسکتے ہیں۔
خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثّریا می رود دیوار کج

اگلے دو برس میں ’ہچکولے‘، ’شاہدہ‘ اور ’سچائی‘ نام کی تین فلمیں ریلیز ہوئیں لیکن تینوں ہی بُری طرح فیل ہوگئیں کیونکہ اُن کا مقابلہ بمبئی کی مضبوط و مستحکم فلم انڈسٹری سے تھا۔

1949 میں ہدایتکار نذیر نے ہندو کرداروں پر مشتمل پنجابی فلم ’پھیرے‘ بنائی جوکہ پاکستان کی پہلی کامیاب فلم تھی اور اس نے بھارت میں بھی بہت بزنس کیا، لیکن پاکستان کی پہلی کامیاب اردو فلم دو آنسو تھی جوکہ 1950 میں ریلیز ہوئی۔ اسی برس معروف مغنّیہ ملکہ پکھراج بمبئی سے نقلِ وطن کر کے لاہور آگئیں اور متروکہ پردھان سٹوڈیو اپنے نام الاٹ کرا لیا جوکہ ملکہ سٹوڈیو کے نام سے برسوں تک کام کرتا رہا ۔ بمبئی سے معروف فلمی مصنف منشی دِل بھی اُن کے ہمراہ یہاں آگئے تھے اور انہوں نے ملکہ پکھراج کےلئے فلم شمّی بنائی جوکہ بہت اچھے میوزک کے باوجود بمبئی مارکہ فلموں کا مقابلہ نہ کرسکی اور ناکام رہی۔

کراچی نے ہماری فلم انڈسٹری کو محمد علی، زیبا، دیبا، کمال، لہری اور نرالا جیسے فنکار مہیا کئے

اس زمانے کی کامیاب ترین فلم کا اعزاز فلم ’چن وے‘ کو حاصل ہوا جو بمبئی اور کلکتے کے منجھے ہوئے فلم ساز شوکت حسین رضوی نے لاہور میں تیار کی تھی اور ڈائریکشن کے خانے میں اُن کی بیگم نورجہاں کا نام درج تھا۔

اگلے برس بھی نور جہاں کی فلم ’دوپٹہ‘ ہی سب سے زیادہ کامیاب ثابت ہوئی۔ سبطین فضلی کی ہدایات میں بنی اس فلم نے بھارت میں بھی زبردست بزنس کیا اور یوں پاکستانی فلمی صنعت کی لاج رکھ لی۔

سن پچاس کے عشرے میں ابھرنے والے اہم ترین ہدایتکار انور کمال پاشا تھے جنہوں نے ہمیں ’قاتل‘ اور ’گمنام‘ جیسی عمدہ فلمیں دیں اور بعد میں ’سرفروش‘ اور ’چن ماہی‘ جیسی کامیاب فلمیں بھی بنائیں۔

1972 سے 1996 تک کا زمانہ بجا طور پر ہماری فلموں کا دورِ سلطانی کہلا سکتا ہے

سن پچاس کا عشرہ فلم انڈسٹری کے لئے قدم جمانے کا عشرہ تھا اور لاہور کا فلمی مزاج ابھی بمبئی کے اثر سے آزاد نہ ہو سکا تھا۔ حتیٰ کہ اس عشرے کی بہترین فلم ’وعدہ‘ (ہدایتکار ڈبلیو زیڈ احمد) بھی اِن اثرات سے مبراّ نہ تھی۔ پاکستان فلم انڈسٹری کو اسکا خاص مزاج سن ساٹھ کے عشرے میں حاصل ہوا جب ریاض شاہد اور خلیل قیصر جیسے مصنف اور ہدایتکار میدان میں آگئے اور ہمیں ’شہید‘ ’خاموش رہو‘ اور ’فرنگی‘ جیسی فلمیں دیکھنے کو ملیں۔

سن ساٹھ کے عشرے میں کراچی بھی فلم سازی کے ایک اہم مرکز کے طور پر ابھرا۔ کمال اور زیبا کی ہلکی پھُلکی کامیڈی فلمیں اس دور کی خوبصورت یادگار ہیں۔ بعد میں اسی شہر نے محمد علی، دیبا، کمال ایرانی، لہری اور نرالا جیسے فنکاروں کو پروان چڑھایا۔

1965 میں بھارتی فلموں پر پابندی لگ جانے کے باعث جہاں پاکستانی انڈسٹری کو کاروباری طور پر زبردست بڑھاوا ملا وہیں مقابلے کی فضا ختم ہوجانے کے سبب معیار گرنے لگا۔ کراچی کے بعد ڈھاکہ نے اُردو فلموں کی آبرو بچا رکھی تھی لیکن 1971 کے بعد مشرقی پاکستان اچانک بنگلہ دیش بن گیا اور یوں شبنم اور سبھاش دتّہ کے ساتھ شروع ہونے والا ارود فلموں کا مختصر دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ تاہم اس دور نے ہمیں ندیم اور شبنم جیسے فنکار اور روبن گھوش جیسے موسیقار فراہم کیے جو سال ہا سال تک ہماری فلمی صنعت کا سرمایہ رہے۔

سلطان راہی کا ریکارڈ

سلطان راہی نے اپنی اچانک موت تک 500 سے زیادہ فلموں میں کام کیا تھا اور موت کے وقت اسکی 54 فلمیں زیرِ تکمیل تھیں، جوکہ ہر لحاظ سے ایک عالمی ریکارڈ ہے
پنجابی فلموں کا سنہری دور اگرچہ ساٹھ کے عشرے ہی میں شروع ہوگیا تھا جب اداکاروں میں فردوس اور اکمل پیش پیش تھے اور آدھی سے زیادہ فلمیں صرف ایک شخص یعنی حزین قادری کے زورِ قلم کا نتیجہ تھیں، پنجابی فلم نے اپنا اصل عروج سن ستر کی دہائی میں دیکھا جسے ہم بجا طور پر دورِ سلطانی کہہ سکتے ہیں۔ سلطان راہی نے اپنی اچانک موت تک 500 سے زیادہ فلموں میں کام کیا تھا اور موت کے وقت انکی 54 فلمیں زیرِ تکمیل تھیں، جوکہ ہر لحاظ سے ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ سلطان راہی کی فلم ’مولا جٹ‘ نے بھی کئی ریکارڈ قائم کئے۔ یہ لاہور میں مجموعی طور پر تین سو دس ہفتے چلی اور اگر بین نہ کردی جاتی تو یقیناً مرکزی تھیٹر ہی میں پانچ سال تک چلتی رہتی اور یوں بھارتی فلم ’شعلے‘ کا ریکارڈ برابر کر دیتی۔ لیکن ایک سینسر شدہ منظر کے فلم میں دوبارہ شامل کیے جانے کے الزام میں اس فلم کی نمائش روک دی گئی۔

مجاجن سالِ گذشتہ کی واحد کامیاب فلم تھی

یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے، اور یہ بھی ایک ریکارڈ ہے، کہ ایک پرانی فلم کے طور پر جب یہ دوبارہ ریلیز ہوئی تو اس نے لاہور اور کراچی میں پھِر سے ڈائمنڈ جوبلی کی۔ اس فلم کی کامیابی کا سہرا سلطان راہی کے ساتھ ساتھ مصنف ناصر ادیب کے سر بھی بندھتا ہے جسکے ٹائِٹ سکرپٹ اور تُرکی بہ تُرکی مکالمات نے فلم کو اتنی کامیابی دلوائی تھی۔ یہ اس زمانے کی واحد فلم تھی جسکی وڈیو اتنے بڑے پیمانے پر سمگل ہو کر بھارت پہنچی اور جسے وہاں لاکھوں ناظرین نے دیکھا۔

سلطان راہی کا دور 1972 سے لیکر 1996 تک کی رُبع صدی پر چھایا ہوا تھا اور انکی موت کے ساتھ ہی فلم انڈسٹری کی بھی کمر ٹوٹ گئی۔

سن اسّی کے عشرے میں ٹیلی ویژن کے بہت سے فنکار اور مصنف فلمی دنیا کی جانب آئے لیکن وہاں انکے قدم نہ جم سکے۔ البتہ فلم انڈسٹری ہی سے ابھرے والے ایک نوجوان سید نور نے پہلے مصنف اور پھر ایک ہدایتکار کے طور پر اپنا لوہا منوا لیا۔

1993 میں سید نور نے بطور ہدایتکار اپنی اولین فلم ’ قسم‘ پیش کی جس میں ٹی وی سے آنے والے نئے فنکاروں کو اپنی صلاحیتں دکھانے کا موقعہ فراہم کیا۔ قسم کی کاسٹ میں سلیم شیخ، ارم حسن، ندا ممتاز، اورنگ زیب لغاری اور خالد بٹ جیسے معروف ٹی وی فنکار شامل تھے۔

دو برس بعد سید نور نے ’جیوا‘ جیسی ہٹ فلم پیش کی اور اس میں بھی جاوید شیخ، بابر علی، غلام محی الدین اور خالد بٹ جیسے ٹی وی اداکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

آج کا کامیاب ترین مصنف، فلم ساز اور ہدایتکار سید نور

1995 میں سید نور نے فلم ’مشکل‘ تحریر کی اور اگلے برس معروف فلم ’گھونگھٹ‘ لکھی اور خود ہی ڈائریکٹ بھی کی۔ تکنیکی لحاظ سے یہ ایک شاندار پیش کش تھی اور اس فلم کے نوجوان پروڈیوسر شہزاد رفیق نے معیار پہ کہیں بھی سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔ بعد میں جب شہزاد رفیق نے خود اپنی فلم ’سلاخیں‘ ڈائریکٹ کی تو اس معیار کو برقرار رکھا۔

سید نور کا اگلا معرکہ تھا ’دوپٹہ جل رہا ہے‘ یہ ایک بامقصد معاشرتی فلم تھی لیکن تمام کمرشل تقاضوں کو بھی پورا کرتی تھی۔ تاہم کاروباری طور پر زیادہ کامیابی فلم ’چوڑیاں‘ کو حاصل ہوئی جس میں پنجابی فلموں کے بلند بانگ انداز کو مسترد کر کے ہلکا پھلکا آھنگ اختیار کیا گیا تھا اور یہی سادگی اسکی سب سے بڑی خوبی بن گئی تھی۔

سید نور کا آخری معرکہ ’مجاجن‘ ہے جوکہ سالِ گذشتہ کی واحد کامیاب فلم تھی۔

سال 2007 جوکہ پاکستانی فلموں کے ساٹھویں برس کی نمائندگی کرتا ہے، بظاہر کسی بڑے فلمی واقعے کے بغیر گزر رہا تھا لیکن پھر ٹی وی کے سپوت شعیب منصور کی فلم ’خدا کے لئے‘ منظرِ عام پر آگئی جس نے نہ صرف اس ساٹھویں برس کی لاج رکھ لی بلکہ مایوسی کے گھُپ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی فلمی صنعت کو روشنی کی ایک کرن بھی دکھا دی۔

کراچی میں ٹیلی ویژن اور وڈیو کی صنعت سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوان اس وقت فلم سازی کے میدان میں اترے ہوئے ہیں اور شعیب منصور کی فلم جوکہ اچھی موسیقی کے بغیر بھی ہٹ ہوگئی ہے اُن نوجوان فلم سازوں کےلئے انتہائی حوصلہ افزائی کا باعث ہے جو ناچ گانے کا سہارا لئے بغیر کامیاب کمرشل فلمیں تیار کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔