سقوطِ ڈھاکہ کو آج بیالیس سال ہو چکے ہیں۔ ان بیالیس سالوں میں نہ ہی بنگلہ دیش اور نہ ہی باقی ماندہ پاکستان نے کوئی کوشش کی کہ دوبارہ ایک دوسرے کے نزدیک آتے۔ چلیں مان لیں کہ پنجابیوں نے بنگالیوں کو دبائے رکھا مگر وہ پاکستان کی پہلی جنریشن تھی۔ کم از کم دوسری نہیں تو تیسری جنریشن کو تو کوشش کرنی چاہیے تھی کہ دونوں ممالک دوستی کا ہاتھ بڑھاتے مگر ایسا نہیں ہو پایا۔
موجودہ حکومت بھی تعلقات کی استواری میں بنگلہ دیش پر بھارت کو اولیت دے رہی ہے۔ میاں شہباز شریف بھارت کا دورہ تو کر سکتے ہیں مگر بنگلہ دیش کا دورہ نہیں کر سکتے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم ان تعلقات کی استواری میں پہل کریں اور اس کے لیے ہمیں معافی کی شکل میں قربانی بھی دین پڑ جائے تو بھی یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا۔ بنگلہ دیش پھر بھی مسلمان ملک ہے اور وہ جو کہتے ہیں کہ اپنا مارے گا تو سائے میں ہی رکھے گا کے مصداق اگر بنگلہ دیش نے ہمیں تنگ بھی کیا تو اسے شاید بعد میں غلطی کااحساس بھی ہو گا۔