زرداری نے مشرف کو بلا کہا اور مشرف نے زرداری کو بلا۔ اب مشرف ایک مبینہ منصوبے کے تحت پسپتال میں داخل ہیں اور لوگ ان کو بزدل کمانڈو، ڈرپوک اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ چوہا بھی اپنے گھر میں شیر ہوتا ہے اور جس کی لاٹھی ہوتی ہے اسی کی بھینس ہوتی ہے۔ جب مشرف حکمران تھا تو وہ کمانڈو تھا اور اب عام شہری ہے تو ذلیل ہو رہا ہے۔ نواز شریف 1999 میں وزیراعظم تھے تو شیر تھے اور جب تخت سے اتارے گئے تو جیل میں معافی مانگ کر باہر بھاگ گئے۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو ہمارے سابق اور موجودہ حکمران کسی ناں کسی دور میں بلے رہے ہیں۔
بھٹو جنرل ایوب کے بلے تھے، اسی کے دودھ پر پلے اور پھر اسی کو کھا گئے۔
نواز شریف جنرل ضیاءالحق کے بلے تھے، اسی نے انہیں پالا، اسی کی لاش پر سیاست کی اور اب اس کا نام تک نہیں لیتے۔
جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کی بلیاں تھیں اور ان کی ڈکٹیٹرشپ کا حصہ رہیں۔ اب دونوں جماعتیں جنرل مشرف کے پیئے دودھ کا ذکر تک نہیں کرتیں۔
عمران خان بھی جنرل مشرف کے بلے رہے چاہے تھوڑے دنوں کیلیے ہی سہی۔
چوہدری برادران نے تو جی بھر کر مشرف کا دودھ پیا مگر جب جنرل مشرف پر مصیبت آئی تو ان بلوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
بینظیر نے بھی جنرل مشرف کی بخشیش کا دودھ پیا اور اس کیساتھ زرداری کی رہائی کا معاہدہ کیا مگر بعد میں وہ معاہدہ توڑ کر ملک میں واپس آ گئیں۔ بعد میں انہیں جنرل مشرف نے قتل کیا یا زرداری نے یہ راز شاید کبھی فاش نہ ہو سکے کیونکہ دونوں کسی اور کے بلے ہیں۔
آج جنرل مشرف کی مبینہ بیماری سے یہی ثابت ہوا کہ ڈنڈا اب بھی فوج کے ہاتھ میں ہے اور وہ جس کو چاہتی ہے دودھ پلاتی ہے اور جس کو چاہتی ہے پھانسی چڑھا دیتی ہے۔
آج کی صورتحال کے بعد سب یہی کہہ رہے ہیں کہ مشرف کی بیماری مبینہ ہے اور وہ اس بیماری کی آڑ میں عدالتوں کے چنگل سے نکل کر بھیگی بلی کی طرح ملک بدر ہو جائیں گے۔