ہے۔گوانتاناموبے کے قیدیوں کی شاعری ایک امریکی وکیل مارک فیلکوف نے حال ہی میں ایک کتاب ’Poems from Guantanamo‘ یعنی گوانتاناموبے کی نظمیں شائع کی ہے۔

بحرین سے تعلق رکھنے والے قیدی جمعہ الدوساری لکھتے ہیں :

لے جاؤ میرا لہو
میرا کفن بھی لے جاؤ
میری ہڈیاں بھی بچی ہیں تو وہ بھی لے جاؤ
قبر میں اگر میری تنہا لاش رہ گئی ہو تو اس کی تصویریں بنا لو
دنیا بھر میں ان کی تشہیر کرو
دکھاؤ انہیں انصاف کرنے والوں کو
ان لوگوں کو بھی جن کے ضمیر زندہ ہیں
ان سے کہو اس معصوم کی روح
اس لہو کا حساب مانگ رہی ہے
دنیا سے ۔۔۔ آنے والی نسلوں سے ۔۔۔ تاریخ سے
کیا جرم تھا اس بے گناہ کا
یہ کس جرم میں مارا گیا
یہ بے گناہ ان لوگوں کے ہاتھوں مارا گیا
جو دنیا میں امن کے رکھوالے ہیں

ایک قیدی ابراہیم الروبیعیش کی نظم ’Ode to the sea‘ کا ترجمہ:

اے بحرِ بے کنار
کیا ہمارے تغیر سے تو ناراض ہوتا ہے
ہم تو مجبور ہیں
نہ اپنی مرضی سے آئے نہ مرضی سے گئے
کیا تو ہمارے گناہ کو جانتا ہے
کیا تجھے معلوم ہے کہ ہم اس غم میں کیوں مبتلا ہیں
اے بحرِ بے کنار
تو ہماری قید پر ہمیں رسوا کرتا ہے
تو ہمارے دشمن سے جا ملا ہے اور ہم پر نظر رکھتا ہے !
کیا تیرے سینے میں سنگلاخ چٹانیں تجھے نہیں بتاتیں کہ یہاں کیا جرم ہوتا ہے
کیا کیوبا کا یہ بیاباں تجھے یہاں کے مظالم نہیں بتاتا ہے
ہم تیرے سامنے کتنے برسوں سے پڑے ہیں
اور تجھے کیا ملا، پانی میں لکھے لفظ انگارے ہیں ۔۔۔ دہکتے کوئلے کی مانند دل

الجزیرہ ٹی وی سے تعلق رکھنے والے سمجیع الحاج نامی صحافی جس نے افغانستان کی جنگ کے دوران اپنی پیشہ وارانہ ذمے داریاں سرانجام دیں اسے بھی 2001ء میں امریکی حکام نے گرفتار کرکے پہلے تو قندھار میں بگرام کے ہوائی اڈے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر اسے گونتاناموبے منتقل کردیا گیا۔۔۔۔ اس کی ایک نظم

جب میں درختوں پر کوئل کی کوک سنتا ہوں

تو آنسو آبشار کر طرح میرے رخسار پر بہنے لگتے ہیں

جب میں ننھے پرندوں کو چہچہاتے دیکھتا ہوں

تو میر گریہ و زاری میں مزید شدت آجاتی ہے

اے میرے بیٹے محمد، میں مخاطب ہوں تجھ سے

کہ تیرا مظلوم بابا رنج و الم میں ڈوب چکا ہے

ٹوٹ چکا ہے

اور اللہ کے سوا اس کا کوئی پرسان حال نہیں

غاصب تیرے بابا کی روح کے تاروں کو یوں چھیڑتے ہیں

گویا وہ کوئی ساز ہے

وہ مجھے ہر طرح کا لالچ دیتےہیں

مگر زروزمین تو کبھی میری خواہش نہ تھی

میری خواہش تو بس ایک ہی ہے

کہ میں ظلم کے یہ بندھن توڑ کے سارے

اپنے وطن کی آزاد فضا میں سانس لے سکوں

وہ مجھے کیا کیا ترغیب نہیں دیتے

اور میں پابندسلاسل اپنے ہی ضمیر کا قیدی

یہ جان چکا ہوں

کہ ان کے یہ سارے دعوے کھوکھلے ہیں

ان کے منہ سے منافقت کی بو آتی ہے

گو کہ وہ آزادی کی یادگار بنائے بیٹھے ہیں

اور پھر بھی نہیں جانتے کہ اظہار آزادی

مجسمہ آزادی سے بہتر ہے

مگر یہ تلخ حقیقت ان گونگے بہروں کو کون بتائے

کہ صرف مجسمہ آزادی بنا دینا انصاف نہیں

اے امریکہ

تو ہماری زخمی شہ رگ پر کب تک سوار رہے گا؟

اور کب تک ہمیں ڈراتا دھمکاتا رہے گا؟

اے بش، یاد رکھ

اللہ تک میری آہ و بکا پہنچ رہی ہے

مجھے یقین ہے کہ حق قریں ہے

ہاں میں بے خانماں و برباد قیدی ہوں

دشمنوں کے قہروغضب کا شکار پردیسی ہوں

اے میرے بیٹے محمد، میں تیرا بھی مجرم ہوں

لیکن میرے بیٹے مجھےمعاف کردینا

اور اپنے باپ کے لیے استقامت کی دعا کرنا

میں بیڑیوں میں پابجولاں عبرت کا مرقع ہوں

اور شعر کیسے لکھوں کہ میری نغمگی چھن گئی ہے

اب تو میرے پاس اندھیری راتوں

اور بہتے اشکوں کے سوا کچھ نہیں ہے

میں شعر لکھ بھی کیسے سکتا ہوں

کہ یری روح میں تلاطم برپا ہے

موت کے مہیب سائے میرے سرپر منڈلا رہے ہیں

میرے مالک، میرے بچے محمد کو ٹوٹنے نہ دینا

میرے مالک

حق کو فتح مند کرنا

جب میں درختوں پر کوئل کی کوک سنتا ہوں … تو آنسو آبشار کی طرح میرے رخسار پر بہنے لگتے ہیں… جب میں ننھے پرندوں کو چہچہاتے دیکھتا ہوں … تو میری گریہ وزاری میں مزید شدت آجاتی ہے… اے میرے بیٹے محمد! میں مخاطب ہوں تجھ سے… کہ تیرا مظلوم بابا رنج و الم میں ڈوب چکا ہے… ٹوٹ چکا ہے… اور اللہ کے سوااِس کا کوئی پرسانِ حال نہیں … غاصب تیرے باباکی روح کے تاروں کویوں چھیڑتے ہیں… گویا وہ کوئی ساز ہے… وہ مجھے ہر طرح کا لالچ دیتے ہیں … مگرزر وزمین تو کبھی میری خواہش نہ تھی… میری خواہش تو بس ایک ہی ہے … کہ میں ظلم کے یہ بندھن توڑ کے سارے … اپنے وطن کی آزاد فضا میں سانس لے سکوں… وہ مجھے کیا کیا ترغیب نہیں دیتے… اور میں پابند سلاسل، اپنے ہی ضمیر کا قیدی… یہ جان چکا ہوں … کہ اِن کے یہ سارے دعوے کھوکھلے ہیں… اِن کے منہ سے منافقت کی بو آتی ہے… گوکہ وہ آزادی کی یادگار بنائے بیٹھے ہیں… اورپھر بھی نہیں جانتے کہ اظہارِ آزادی … مجسمہٴ آزادی سے بہتر ہے… مگریہ تلخ حقیقت اِن گونگے بہروں کوکون بتائے … کہ صرف مجسمہٴ آزادی بنا دینا انصاف نہیں… اے امریکا!… توہماری زخمی شہ رگ پر کب تک سوار رہے گا؟ … اورکب تک ہمیں ڈراتادھمکاتا رہے گا؟ … اے بش! یاد رکھ!… اللہ تک میری آہ و بکا پہنچ رہی ہے … مجھے یقیں ہے کہ حق قریں ہے… ہاں میں بے خانماں و برباد قیدی ہوں … دشمنوں کے قہرو غضب کا شکار پردیسی ہوں … اے میرے بیٹے محمد میں تیرابھی مجرم ہوں … لیکن میرے بیٹے مجھے معاف کردینا… اوراپنے باپ کے لیے استقامت کی دعا کرنا… میں بیڑیوں میں پابجولاں عبرت کا مرقع ہوں… اور شعر کیسے لکھوں کہ میری نغمگی چھن گئی ہے … اب تو میرے پاس اندھیری راتوں… اور بہتے اشکوں کے سوا کچھ نہیں ہے… میں شعر لکھ بھی کیسے سکتا ہوں… کہ میری روح میں تلاطم برپا ہے… موت کے مہیب سائے میرے سر پر منڈلا رہے ہیں… میرے مالک!میرے بچے محمد کو ٹوٹنے نہ دینا !… میرے مالک! … حق کو فتح مند کرنا…!!!