بلاگر قدیر احمد نے اپنے بلاگ پر ایک نوٹ چسپاں کیا ہوا ہے جس سے ہمیں اختلاف ہے۔

مجھے وہ لوگ اچھے نہیں لگتے جو چند جرنیلوں کی وجہ سے ساری پاک فوج کو برا کہتے ہیں ۔ مجھے پاکستانی فوج سے محبت ہے !!!

یہ تو سیدھی سی بات ہے کہ خاندان کی شناخت اس کے سربراہ سے ہوتی ہے۔ اگر خاندان کا سربراہ برا ہو تو پورے خاندان کی عزت داؤ پر لگی ہوتی ہے۔  دوسری طرف اگر سربراہ نیک ہے لیکن اس خاندان کا ایک آدھ فرد بری عادتوں کا شکار ہے تو پھر لوگ اس خاندان کو نہیں بلکہ صرف اس ایک فرد کو برا کہيں گے۔

بچے کی نشونما اس کی ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے پھر مسجد، سکول اور معاشرے کی چھاپ اس پر لگتی ہے اور وہ جوان ہو کر اسی ماحول اور معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی لیے پنجابی میں کہتے ہیں “برے نوں نہ مارو برے دی ماں نوں مارو تاکہ اوہ اک اور برا نہ جمے”۔ مطلب یہ ہوا کہ بحیثیت مجموعی اگر کسی ادارے کی کارکردگی دیکھنی ہے تو سب سے پہلے اس کے سربراہ کی کارکردگی دیکھی جاتی ہے کیونکہ سربراہ ہی ایک ایسا شخص ہے جو ادارے کو اچھا یا برا بناتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ایک مچھلی پورے جال کو گندہ کرتی ہے لیکن اگر مچھلی تمام مچھلیوں کی ماں یعنی وہیل ہو تو جال کو ہی تہس نہس کر دیتی ہے۔

ان مثالوں سے ہم نے یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی ادارے کا منہ متھا اس کا سربراہ ہوتا ہے یعنی اگر سربراہ برا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس ادارے کی بنیاد غلط رکھی گئ ہے اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والا ہر سربراہ برا ہی ہوگا۔ فوج کو بحیثیت ادارہ جانچنے کیلیے ہمیں اس کی کوکھ کا جائزہ لینا پڑے گا جس میں پل پوس کر وہ جرنیل پیدا ہوتے ہیں جو اس کے نام کو بٹا لگاتے ہیں۔ فوج میں بھرتی یعنی کمیشن حاصل کرنے کا معیار بالکل انوکھا ہے اور آج تک کسی کو یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ سیلیکشن کس طرح کی جاتی ہے۔ نہ ہی اس سیلیکشن کے طریقے کو کبھی عام کیا گیا ہے اور نہ ہی کیمشن حاصل کرنے والے کو پتہ چلتا ہے کہ اس کی کون کون سی خوبیاں اس کی سیلیکشن کا سبب بنیں اور کونسی کونسی کمزوریاں اس کی کامیابی میں رکاوٹ بنیں۔ ہر امیدوار خدا کے سہارے کمیشن کیلیے حاضر ہوتا ہے اور سیلیکشن کے طریقے سے گزرنے کے بعد اس کا خدا پر یقین پکا ہوجاتا ہے کیونکہ اس سے زیادہ ذہین سیلیکٹ ہونے سے رہ جاتے ہیں اور عام عام سے لڑکے کمیشں حاصل کرلیتے ہیں۔

جب ہم لوگ کہتےہیں کہ فوج بری نہیں بلکہ جرنیل برے ہیں تو اس کا مطلب فوج بحیثیت ادارہ نہیں لیا جاتا بلکہ فوج کے سپاہی اور نان کمیشنڈ آفیسرز لیے جاتے ہیں اور انہیں ہی ہم فوج کہتے ہیں حالانکہ انہی فوجیوں کے افسر کمیشنڈ آفیسر ہوتے ہیں جو اکیڈمیوں سے تربیت حاصل کرکے ان پر مسلط ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کمیشنڈ اور نان کمیشنڈ آفسیر کی ٹسل چلتی رہتی ہے۔ یہ کمیشنڈ آفیسر اکیڈمی میں انگریز کے بنائے ہوئے طریقے سے تربیت پاتے ہیں اور اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ایک غریب گھر کا لڑکا بھی جب لفٹین بن کر اکیڈمی سے باہر نکلتا ہے تو وہ اپنے آپ کو بلڈی سویلین سے سپیریئر سمجھنے لگتا ہے۔ پاکستان بنے ساٹھ سال ہوچکے ہیں اور ہم نے اکیڈمی کے طریقہ تربیت کو نہیں بدلا جس کی وجہ سے اکیڈمی کا تربیت یافتہ لفٹین پاکستانی کم اور گورا صاحب زیادہ ہوتا ہے۔ یہی دیسی گورے صاحب مزید گورے ہوجاتے جب بیرون ملک تربیت حاصل کرکے آتے ہیں۔ ہمیں آج تک یہی توفیق نہیں ہوسکی کہ ہم آرمی آفیسرز کی تربیت مکمل اسلامی اصولوں پر کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری فوج کے عام سپاہی اور نان کمیشنڈ آفیسرز کو تو دین کی طرف مائل کردیا جاتا ہے اور کمیشنڈ آفیسرز جوئے، شراب اور کباب میں رنگ جاتے ہیں۔ کمیشنڈ آفیسرز کے نزدیک اسلام ایک دقیانوس مذہب قرار پاتا ہے اور ان کا آخرت پر سے یقین تک اٹھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے چھاونیوں کی مساجد سپاہیوں اور نان کمیشنڈ آفیسروں سے بھری ہوتی ہیں۔ کمیشنڈ آفیسر اگر مسجد آتے بھی ہیں تو عبادت کیلیے نہیں بلکہ ڈیوٹی سمجہ کر۔

پتہ نہیں کیوں ہماری سابقہ حکومتوں نے فوج کی اکیڈمیوں کے سلیبس بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ جس طرح آجکل ہمارا نصاب تعلیم بدلا جارہا ہے اور مدارس کو بھی نصاب تعلیم بدلنے پر مجبورکیا جارہا ہے[ تاکہ مسلمانوں کے اندر سے جذبہ جہاد ختم کردیا جائے جسے مغرب اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے] اسی طرح ہماری فوجی اکیڈمیوں کے سلیبس کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس سلیبس سے وہ سب مواد نکالنے کی ضرورت ہے جو کمیشنڈ آفیسر کو آسمانی مخلوق بناتا ہے جس کی وجہ سے آدمی وردی پہن کر عام سویلین میں گھلنا ملنا گناہ سمجھنا شروع کردیتا ہے۔

ہم تو یہی کہیں گے کہ اگر فوج کو عوامی نفرت سے بچانا ہے تو پھر جرنیلوں کو اپنا کردار درست کرنا ہوگا۔ جرنیلوں کا کردار درست کرنے کیلیے فوجی اکیڈمیوں کا سلیبس بدلنا ہوگا۔ یعنی سب سے پہلے لفٹين کی درست تربیت کا بندوبست کرنا ہوگا تاکہ اس کی کوکھ سے صالح جرنیل جنم لیں اور ان کی تربیت مکمل اسلامی ماحول میں ہو۔ جب جرنیل ٹھیک ہوجائیں گے اور ان کی نیک نامی میں اضافی ہوگا تو پھر خود بخود لوگ فوج کو اچھا سمجھنے لگیں گے۔ فوج کو بحیثیت ادارہ بدلنے کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہماری حکومت مخلص ہو جو گورے کے دیے ہوئے تحفے کو کوڑے کرکٹ میں پھینک کر ایسے ادارے کی بنیاد رکھے جس کے پیٹ سے قوم کے محافظ پیدا ہوں ناں کہ اس کے حاکم۔

ہم  اپنے استدلال میں مزید وزن پیدا کرنے کیلیے گزارش کریں گے کہ آج کے جنگ ميں آپ کالم نگار عظیم سرور کا کالم “اب مت آنا” ضرور پڑھیے گا۔۔