فوج پر تنقید کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم غدار ہیں یا ہمیں ملک سے محبت نہیں‌ہے۔ ہم نے بھی پاکستان میں‌اپنی جوانی گزاری ہے اور ہم فوج کے مثبت کردار کے معترف ہیں۔۔ ہمارے  والد صاحب اور بڑے بھائی بھی سابقہ فوجی ہیں۔ ہم نے بھی انجینئرنگ کے بعد فوج میں کمیشن کی کوشش کی تھی مگر قسمت نے یاوری نہیں کی۔  ہم نے بھی 1965 اور 1971 جنگوں میں محاذ پر جاتے ہوئے فوجیوں کیساتھ مسافحہ کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا انہیں کھانے پینے کی اشیاء دینے کی کوشش کی تھی جو انہوں نے لینے سے انکار کردیا تھا۔ ہمیں اب تک نور جہاں کا ترانہ “میریا ٹہول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں” پسند ہے۔  ابھی بھی ہمارے دوست احباب فوج میں اعلٰی عہدوں پر فائز ہیں اور ان کی فوجی زندگی سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے۔  ہمیں‌بھی فوج سے اتنی ہی ہمدردی اور پیار ہے جتنا دوسروں کو ہے۔ مگر جب فوج اپنے اصل کردار کو چھوڑ کر سیاست میں‌گھسے گی اور کرپشن میں ملوث ہوجائے گی پھر اسے تھوڑی تنقید تو سننی پڑے‌گی۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہم پاکستانی فوج سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی اپنے دین سے اور یہی وجہ ہے کہ جس طرح اسلام کیخلاف لکھی گئی تحریر ہمیں مشتعل کردیتی ہے اسی طرح فوج پر جائز تنقید بھی ہمارے خون کو گرما دیتی ہے۔ کاش یہ بات اس ادارے کی سمجھ میں بھی آجائے اور وہ اپنے آپ کو سیاست اور حکومت سے الگ کرکے اپنا باعزت مقام قائم رکھے۔

کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ اب تک فوج نے پاکستان کی سرحدوں کی کن مواقع پر حفاظت کی ہے۔ ہم نے اب تک لڑی گئی تمام جنگیں میدان میں یا ٹیبل پر ہاری ہیں۔  آج کل تو دوسرے اسلامی ملکوں کی طرح‌ فوج کا کام صرف اور صرف غیروں کے مفادات کی حفاظت رہ گیا ہے۔ پاکستان کی طرح اسلامی فوج یہی کچھ ترکی، مصر، اردن، لیبیا، سعودی عرب وغیرہ میں‌کررہی ہے۔ سب جانتے ہیں ‌عراقی فوج صرف ایک کمیشنڈ آفیسر صدام کے اشاروں پر چلتی تھی۔ صدام جونہی ڈھیر ہوا پانچ لاکھ عراقی فوج ملکر بھی ملک کو غیروں کے قبضے میں‌جانے سے نہ روک سکی۔ اسی لیے اسلام میں ‌جہاں ‌بھی فوج کی فتوحات کا ذکر ہوتا ہے اس کے سپہ سالار کا نام سب سے پہلے لیا جاتا ہے اور تمام فتوحات اسی کے کھاتے میں‌ڈالی جاتی ہیں۔ ڈھاکہ میں‌ ہتھیار جنرل نیازی نے ڈالے تھے اور اس کے بعد فوجی [سپاہی اور نان کمیشنڈ آفیسرز]‌جنگ جاری نہ رکھ سکے۔
ہمارے ملک میں‌فوج نے ہمیشھ اپنے ہی عوام کو فتح کیا ہے جیسا کہ لال مسجد میں‌ہوا اور وزیرستان میں‌ہو رہا ہے۔
‌فوج سپاہیوں اور نان کمیشنڈ آفیسرز کی اکثریت  پر مشتمل ہے ‌مگر ہم سب جانتے ہیں‌کہ یہ لوگ بے بس ہیں اور حکم کے غلام ہیں۔ یہ تو کمیشنڈ ‌آفیسروں کے کہنے پر مساجد اور مدارس تک پر حملہ کرنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں آج تک کسی جرنیل کو کسی بھی مقدمے میں سزا نہیں ہوئی بلکہ ملک توڑنے والوں اور ہتھیار پھینکنے والوں کو اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔ آپ کسی لفٹین کی زیادتی پر اسے سرزنش کیجئے اور پھر دیکھیے آپ کا کیا حشر ہوتا ہے۔ ایک صاحب ابھی تک ایک فوجی آفیسر کی رشتہ دار کے ساتھ محبت کے جرم کی پاداش میں غداری کے مقدمے میں سزا بھگت رہے ہیں۔
آئی ایس آئی اور خفیہ والے کیا سارے جرنیل ہیں نہیں ان میں سپاہی اور نان کمیشنڈ آفیسرز بھی شامل ہیں۔ ہم سب گواہ ہیں کہ خفیہ والے اپنے دشمن کو غائب کرنے کی بجائے اپنوں کو ہی شادی کے دن اٹھا کر لے جاتے ہیں اور بعد میں ان کے لواحقین سپریم کورٹ سے انصاف مانگتے پھرتے ہیں۔ ابھی تک جتنے لوگ خفیہ والوں نے رہا کیے ہیں ان  میں اکثر کا ذہنی توازن کھو چکا ہے۔ کچھ لوگ تو اتنے پٹے کہ رہائی کے بعد جلد ہی دنیا سے کوچ کرگیے۔

یاد رکھیے جرنیل جب مارشل لاء کے دوران سپاہیوں کو عوام پر ٹوٹ پڑنے کا حکم دیتے ہیں تو سپاہیوں کے پاس حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اگر آج خدا نخواستہ ملک میں مارشل لاء لگ جائے تو دیکھیے گا یہی سپاہی بازاروں میں اپنے ہی لوگوں کو گھسیٹے پھریں گے۔ کراچی کے بارہ مئی کے فسادات کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ رینجرز کی آنکھوں کے سامنے قتل عام ہوا مگر ایک سپاہی تک نے مداخلت نہیں کی بلکہ کمانڈر انچیف نے ان فسادات کو طاقت کا مظاہرہ قرار دیا۔  اور جب ظلم کا کھیل کھیلا جاچکا تو پھر کمانڈروں کے کہنے پر فوج نے شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔

فوج جب سے سیاست میں ملوث ہوئی ہے اس نے عوام کی نفرت سے بچنے کیلے اپنا نام تک بدل لیا ہے۔ اب میڈیا پر جہاں بھی فوجی کاروائی کا ذکر ہوتا ہے، اس میں  فوج کو حساس ادارہ اور  فوجی کو فوجی کی بجائے سیکیورٹی اہلکار کہ کر پکارا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فوج کے کرتا دھرتا خود بھی جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں اس کو عوام اچھا نہیں سمجھتے۔

خدارا ہمارے لکھے کو فوج پر تنقید برائے تنقید مت لیجئے گا بلکہ اسے فوج کیساتھ ہمدردی سمجھیے گا۔ اس ہمدردی کی وجہ سے ہم نے فوج کے ادارے کو عوام میں پھر سے مقبول بنانے کیلیے چند تجاویز دی تھیں جو ہم یہاں دوبارہ دہرا رہے ہیں۔

 فوج کے تربیتی اداروں کو مغرب کی بجائے اسلامی اصولوں پر ترتیب دیا جائے۔ کمیشنڈ آفیسروں کو ایسی تربیت دی جائے کہ وہ اپنے آپ کو کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھنے کی بجائے عوام کے محافظ سمجھنے لگیں۔ فوج کو سیاست اور حکومت سے جتنا ممکن ہوسکے دور رکھا جائے ۔ فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں کو سول اداروں سے نکال دیا جائے خاص کر تعلیمی اداروں سے۔ فوج کو این ایل سی، فوجی فاؤنڈیشن کی طرح کے اداروں کو صرف اپنے ریٹائرڈ ساتھوں کی فلاح تک محدود رکھنا چاہیے اور ان اداروں کے بل بوتے پر سٹیٹ کے اندر سٹیٹ کی بنیاد نہیں رکھنی چاہیے اور نہ ہی ان اداروں کو اتنا پھیلانا چاہیے کہ وہ ملک کی معاشیات پر قبضہ کرلیں۔

 انہی معروضات کی بنا پر ہماری جنرل مشرف سے گزارش ہے کہ وہ اب وردی اتار کر حکومت سول اداروں کے حوالے کریں اور باقی زندگی آرام و سکون سے گزاریں۔ اب تک جنرل صاحب اپنی کرسی بچانے کیلیے جو ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور بینظیر، میاں برادران سے ڈیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ ملک و قوم کیلیے فائدہ مند نہیں ہے۔ ملک و قوم کا فائدہ اسی میں ہے کہ 1973 کا آئین بحال کردیا جائے اور حکومت عوام کو سونپ دی جائے۔ عوام ایک نہ ایک دن گرتے پڑتے جمہوری ادارے قائم کرہی لیں گے۔ دراصل ہم لوگوں میں ایک سب سے بڑی بیماری ہے یعنی ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہی ملک کے مخلص ہیں اور ہمارے بغیر ملک زندہ نہیں رہے گا اور یہی سب سے بڑی بیوقوفی ہے۔ کسی نے کہا  ہےکہ علم یہ ہے کہ اگر آپ غلطی کریں تو پھر آپ اپنی غلطی کو غلطی مان جائیں۔ یہ نہیں کہ اپنی کامیابیوں کو اپنے کھاتے میں ڈالتے جائیں اور ناکامیوں کو اللہ کی رضا کہ کر اپنے آپ کو مطمن کرلیں۔