مانا کہ آئی پی ایل کی انتظامیہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستانی کھلاڑیوں کو آئی پی ایل میں نہیں کھلا رہی مگر جب ٹورنامنٹ دبئی میں کھیلا جا رہا تھا تو پھر سیکیورٹی کے خدشات تو نہیں تھے۔ آئی پی ایل پاکستانی کھلاڑیوں کو نہ کھلا کر کرکٹ کے شائقین کی بہت بڑی تعداد سے محروم ہے۔ اب حالات بھی تقریباَ معمول پر آ چکے ہیں اور اس کے باوجود پاکستانی کھلاڑیوں کو آئی پی ایل میں کھلانے کی سمجھ نہیں آئی۔
ہماری حکومت بھی محب وطن نہیں ہے وگرنہ وہ دباؤ ڈال کر کھلاڑیوں کو آئی پی ایل میں جگہ دلوا سکتی تھی۔ پاکستان کی انڈیا کیساتھ تجارت اربوں روپوں تک پہنچ چکی ہے اور جب کہ پاکستان کے وزیراعظم خود کرکٹ کے کھلاڑی رہ چکے ہیں اور تاجر بھی ہیں، وہ انڈین درآمدات کا دباؤ استعمال کر کے انڈین حکومت کو مجبور کر سکتے تھے کہ آئی پی ایل کی انتظامیہ پاکستانی کھلاڑیوں کو ضرور کھلائے۔ اگر حکومت نے ایسا نہیں کیا تو اس کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے اور وہ ہے ہمارے حکومتی وزرا کی بھارتی تجارت میں شمولیت۔
سنا ہے کہ انڈیا میں ہمارے ٹی چینل نہیں دکھائے جاتے تو پھر پاکستان میں ٹی وی چینل اور فلمیں کیوں دکھائی جاتی ہیں۔ حکومت اگر چاہتی تو صرف اس کاروبار کا دباؤ استعمال بھی کر سکتی تھی۔ مگر نہیں کیونکہ ہمارے کیبل آپریٹرز اور سینما مالکان کا کاروبار ہی انڈین چینلوں اور فلموں کی وجہ سے چل رہا ہے اور حکومت نہیں چاہے گی کہ وہ انڈین چینل اور فلمیں بند کرے۔