کچھ روز قبل بنگلہ دیشی میڈیا کو موجودہ سیاسی بحران اور ہنگاموں کے دوران ایک تصویر کھینچنے کا موقع مل گیا اور بعد میں اسے اخبار میں چھاپ بھی دیا۔ پھر کیا تھا بنگلہ دیشی آرمی نے اس تصویر کو اپنی بدنامی سمجھا اور تصویر کھینچنے اور چھاپنے والے دونوں کو حراساں بھی کیا مگر جو آدمی اس تصویر میں سپاہی کو کک مار رہا ہے اس کا پتہ نہیں چلایا جاسکا کیونکہ اس کا چہرہ تصویر میں نظر نہیں آتا۔

ایک عام آدمی کو سپاہی کو کک اسلیے مارنی پڑی کہ ایمرجینسی کے دوران آرمی نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایک پوسٹ قائم کرلی جس پر طلبا تیش میں آگئے اور انہوں نے ہنگامے شروع کردیے۔ آرمی نے بعد میں یونیورسٹي سے اپنی پوسٹ ہٹا دی مگر ہنگامے کئ روز جاری رہے۔ بنگالی ذرائع کہتے ہیں کہ ان ہنگاموں کی وجہ حکومت سے ناراضگی سے زیادہ روز بروز بڑھنے والی مہنگائی تھی۔ جب سے نگران حکومت آئی ہے مہنگائی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ یہ نگران حکومت انتخابات کرانے کیلیے آئی تھی مگر جنرل ضیاء کی طرح اب پہلے احتساب کے بہانے اپنے اقتدار کو طول دینے لگی ہے۔ احتساب کے چکر میں عام پبلک کو خوش کرنے کیلیے اس حکومت نے کئی نامی گرامی سیاستدانوں کو کرپشن کے جرم میں سزا بھی سنائی ہے۔ اب حکومت کا کہنا ہے کہ انتخابات اگلے سال کے آخر تک ہوں گے۔

 بینظیر اور نواز شریف کی لڑائی کی طرح بنگلہ دیش میں بھی حسینہ واجد اور بیگم خالدہ ضیا کی لڑائی نے فوج کی حمایت یافتہ نگران حکومت کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سول مارشل لاء کی طرز کی حکومت کتنے دن چلتی ہے۔ اس سے پہلے تو سب کہتے رہے ہیں کہ بنگالی مارشل لاء نہیں لگنے دیں گے مگر حالات اب جنرل مشرف کی طرز پر آرمی کی حکومت  کے اشارے دے رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے ہمارے مشترکہ آقاؤں نے جنرل مشرف کے تجربے کو کامیاب جانتے ہوئے بنگلہ دیش میں آزمانے کا پلان بنا لیا ہو۔

 لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان تو ایٹمی طاقت ہے اور دہشت گردی میں فرنٹ سٹیٹ ہے مگر بنگلہ دیش میں آرمی کی حمایت یافتہ حکومت کی ضرورت آقاؤں کو کیوں پیش آئی۔ ہوسکتا ہے کچھ عرصے بعد اس راز سے پردہ اٹھے۔ فی الحال آپ اس تصویر کو غور سے دیکھیے اور خدا کا شکر ادا کیجیے کہ ایسے حالات پاکستان میں ابھی تک پیدا نہیں ہوئے کہ سویلین فوج کے اتنے خلاف ہوجائیں۔ ویسے اگر جنرل مشرف اپنی ضد پر قائم رہے اور اپنی حکومت بچانے کے چکر میں کچھ بھی کرگزرنے پر تیار رہے تو پھر ایسے حالات پاکستان میں بھی بعید نہیں۔