جب سے لال مسجد کا آپریشن مکمل ہوا ہے لال مسجد کو ایک دفعہ نمازیوں کیلیے کھولا گیا مگر جب نمازیوں نے لال مسجد کو دوبارہ لال کرنا شروع کیا تو حکوت کو دوبارہ لال مسجد کو بند کرنا پڑا۔ تب سے مسجد تزئین و آرائش کے بعد بند پڑی ہے اور لال مسجد کے جن نے جس طرح آپریشن سے پہلے حکومت کو حراساں کئے رکھا حکومت کو حراساں کیا ہوا ہے۔ حکومت اب تک ذہین ہونے کے باوجود مسلمانوں کی اس عبادت گاہ کے کھولنے کا کوئی طریقہ کار نہیں ڈھونڈ سکی۔ اس مسئلے پر لگتا ہے فوجی حکمرانوں کا کنٹرول ہے اور فوجی حکمران بھی وہ جو مسجد صرف ذاتی فوائد کیلیے جاتے ہیں خدا کی عبادت کیلیے نہیں۔ لال مسجد کو کھلوانے میں سیاسی میدان کے شہسوار چوہدری برادران اور ان کے سیاسی ساتھی بھی فوجی اقتدار کے آگے بے بس نظر آرہے ہیں۔

ہماری حزب اختلاف کے مولانا بھی مسجد کو کھلوانے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے۔ ان کیلیے مسجد کھلوانے سے زیادہ اہم نواز شریف کا استقبال اور حکومت کی پی پی پی کیساتھ ڈیل کی ناکامی کے بعد کے حالات پرغور و خور ہے۔

اب تو ہر جمعہ کے دن نمازی مسجد کے آس پاس جمع ہوتے ہیں اور نمازِ جمعہ کی اجازت نہ ملنے پر مسجد کے باہر نماز ادا کرنے کے بعد احتجاج کرتے ہیں۔ حکومت کیلیے لال مسجد کا مسئلہ اسی طرح وبالِ جان بن سکتا ہے جس طرح چیف جسٹس کی معطلی بنا تھا۔ لال مسجد کے کھولنے میں تاخیر کے بھی حکومت کو وہی نقصانات جھیلنے پڑیں گے جو چیف جسٹس کی بحالی میں تاخیر کے جھیلنے پڑے۔

پتہ نہیں حکومت کے عالی ظرف دماغ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے اور یہ مسئلہ ایک مسلمان ملک میں مسلمانوں کیلیے چیف جسٹس کی بحالی سے کہیں زیادہ اہم ہے۔انتخابات کی آمد آمد ہے اور حکومت اگر مزید عوامی غیض و غضب سے بچنا چاہتی ہے تو اسے لال مسجد کو جلد کھولنے کیلیے مسجد کے ارد گرد کے مکینوں کو اعتماد میں لے کر جلد از جلد اس قضیے کو حل کرلینا چاہیے۔ ویسے بھی ایک مسلمان ملک کی حکومت کیلیے یہ زیب نہیں دیتا کہ دارالحکومت میں مسلمانوں کی عبادت گاہ کو اتنے لمبے عرصے کیلیے بند رکھے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اور حزب اختلاف لال مسجد کے نمازیوں سے ملکرمسجد کو کھولنے کا جائز اور پرامن حل نکالتے مگر چونکہ اس وقت حکومت اور حزب اختلاف دونوں روشن خیالی اور اعتدال پسندی میں ایک دوسرے پر سبقط لے جانے کیلے کچھ بھی کرنے کیلیے تیار ہیں تاکہ وہ اپنے آقاؤں کی آشیرباد حاصل کرسکیں اسلیے ان کے نزدیک خدا کے حکم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ ہماری فوجی قیادت سیکولر ہے اور اس کا دین سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

لیکن حکومت کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ لال مسجد کی زیادہ دیر تک بندش جہاں خدا کی ناراضگی کا سبب بن رہی ہے وہیں عوامی غصے کو بھی بڑھا رہی ہے۔ اسلیے حکمرانوں اور حزب اختلاف کو چاہیے کہ وہ آپس میں مل بیٹھ کر جلد سے جلد لال مسجد کے کھولنے کا بندوبست کریں تاکہ وہ قیامت کے روز خدا کے سامنے شرمندگی سے بچ سکیں۔