پاکستان کیا دنیا کے کسی بھی ملک میں ملک بدری کا قانون نہیں ہے، ہاں اگر کسی ملک کا شہری دوسرے ملک میں غیرقانونی طور پر رہائش پذیر ہو تو اسے حکومت ملک بدر کرکے اپنے ملک واپس بھیج دیتی ہے۔ اسی طرح کی ملک بدری کا سامنا پچھلے چند سالوں سے پاکستانی شہریوں کو امریکہ میں کرنا پڑرہا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد  ملک ہے جس کا سربراہ برملا اپنے شہریوں کو دوسرے ملک کے حوالے کرکے انعام کی رقم حاصل کرنے کا اعتراف کرچکا ہے۔

آج پتہ نہیں جنرل مشرف کی حکومت نے کس قانون کے تحت میاں نواز شریف کو پاکستان واپسی پر دوبارہ ملک بدرpmlnarrrests.jpg کردیا ہے۔ جہاں تک معاہدوں کا تعلق ہے پاکستان کے سیاستدانوں کی اکثریت زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر معاہدے nawazinplane.jpgتوڑنے کی مرتکب ہوچکی ہے۔ جنرل مشرف کا وردی اتارنے کا وعدہ توڑنا ابھی سب کو یاد ہے۔ دوسری طرف نواز شریف خاندان نے پہلی بار معاہدے کا اعتراف کیا ہے مگر ساتھ ہی یہ کہا ہے کہ وہ معاہدہ پانچ سال کا تھا اور زبانی کلامی تھا۔ یعنی جنرل مشرف کی وعدہ خلافی جیسی توجیح نواز شریف خاندان نے پیش کی ہے۔ وردی نہ اتار کر جنرل مشرف نے بھی یہی کہا تھا کہ وردی اتارنے کا معاہدہ تحریری نہیں تھا۔ یعنی جنرل مشرف ہوں یا نواز شریف دونوں اپنے زبانی وعدوں کو کوئی اہمیت نہ دے کر عوام کو یہ نصیحت کررہے ہیں کہ کبھی بھی زبانی معاہدہ نہ کرنا۔ پاکستان کیا بلکہ دنیا کے تمام ممالک میں عام سا لین دین زبان پر ہوتا ہے۔ ہم جب دکاندار سے سودا خریدتے ہیں تو کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ہماری حکومت اور سیاستدانوں کی زبانی وعدہ خلافیاں اسی طرح جاری رہیں تو ایک دن روزمرہ کے لین دین میں بھی لکھائی پڑھائی ضروری قرار دے کر عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا کے رکھ دیں گی۔

اب تو ہر حکومتی نمائندہ اور تمام سیاستدان اس ڈھٹائی سے ٹی وی سکرین پر جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کی شکل پر ترس آنے لگتا ہے۔ سیاستدانوں کی اکثریت کا کردار اتنا داغدار ہوچکا ہے کہ انٹرویو کرنے والے کے سوالوں کا جواب دینا ان کیلیے مشکل ہوجاتا ہے اور سوال گندم جواب چنا کے مصداق موضوع سے ہٹ کر بات کرکے اپنی جان چھڑاتے ہیں۔

ہم اپنے مستقبل سے پہلے سے زیادہ پرامید ہیں کیونکہ پہلے تو لوگ سنی سنائی باتوں پر کان دھرا کرتے تھے،  پھر اخبار کی خبر پڑھ کر سیاستدانوں کی چالاکیوں سے آگاہ ہوا کرتے تھے مگر اب تو وہ اپنی آنکھوں سے سیاستدانوں کو ٹی وی پر آئیں بائیں شائیں کرتے دیکھتے ہیں اور بعض اوقات تو ٹی وی اینکر ان کے جھوٹ پر ہنس کر ان کا تمسخر اڑانے سے بھی باز نہیں آتا۔

معاشرے میں جھوٹ کی سیاست کا خاتمہ ڈکٹیٹرشپ سے نہیں بلکہ بار بار انتخابات کے بعد سیاسی عمل کے جاری رہنے سے ہوگا۔ یہ بات طے ہے کہ اگر ملک میں دس بیس سال کیلیے اچھی بری جمہوریت یا خلافت کو پنپنے کا موقع دیا جائے تو عوام اپنے لیڈروں کو سیدھا کرکے رکھ دیں گے اور سیاستدان بھی عوامی غضب سے بچنے کیلیے اپنی سیاسی اور اخلاقی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہ سراسر جھوٹ نہیں ہے تو کیا ہے کہ حکومت نے اسلام آباد ایرپورٹ کو جانے والے سارے راستے بلاک کردیے، حزب اختلاف کے لیڈروں کی اکثریت گرفتار کرلی، جی ٹی روڈ کو جگہ جگہ سے بلاک کرکے ملک کی بدترین ٹریفک بلاک کی گئی اور پھر ٹی وی پر آکر کہتے ہیں کہ نواز شریف کے استقبال کیلیے کوئی بھی ایرپورٹ نہیں آیا۔

کتنا اچھا ہوتا اگر نواز شریف یا دوسرے سیاستدانوں کو پاکستان کی سیاست میں آزادی سے حصہ لینے دیا جاتا تاکہ ملک میں جمہوریت پنپ سکتی۔ جس طرح ہمارے معاشرے میں مشہور ہے کہ عورت عورت کی دشمن ہوتی ہے اسی طرح سیاستدان سیاستدان کا دشمن ہوتا ہے۔ جس طرح عورتیں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے کے بعد پھر شیروشکر ہوجاتی ہیں اسی طرح سیاستدان بھی ایک دوسرے کو گالی گلوچ دینے کے بعد ایک ساتھ حکومت میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ کل چوہدری نواز شریف کیساتھ تھے اور آج ان کے خلاف اور ہوسکتا ہے کل پھر ایک ساتھ مل بیٹھیں۔ نواز شریف اور بینظیر کا ایک وقت میں اٹ کتے کا بیر تھا اور بعد میں میثاق جمہوریت پر دستخط بھی کیے۔ جس دن ہمارے سیاستدانوں کی انا اور غیرت جاگ پڑی اور انہوں نے ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر ملکی مفاد میں سوچنا شروع کردیا اس دن ملک کے غریب عوام کی قسمت بدلنا شروع ہوجائے گی۔ یہ تبدیلی جب بھی آئی میڈیا پر نظر آجائے گی اور لوگ پہلی نظر میں ہی سیاستدانوں میں اس تبدیلی کو بھانپ لیں گے۔

نواز شریف کی دوبارہ ملک بدری کے بعد بال پھر سپریم کورٹ کے کورٹ میں جاچکی ہے۔ اب سپریم کورٹ طے کرے گی کہ اپنے ہی شہری کو حکومت بلک بدر کرسکتی ہے یا نہیں اور اگر ملک بدرنہیں کرسکتی تو پھر نواز شریف کی ملک بدری میں ملوث کس کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے سزا تجویز کرے گی؟