سترہ سال پہلے یومِ تکبر پر پاکستان کے ایٹمی دھماکوں نے جہاں پاکستان کو انڈیا کیلیے ناقابل تسخیر بنا دیا وہیں فوج کو مزید طاقت بخش دی۔ اب فوج اتنی طاقتور ہے کہ وہ پاکستان میں طاقت کا سب سے بڑا ستون سجمھی جاتی ہے۔ یہ طاقت ملک کے دفاع میں کام آئے نہ آئے مگر اپنوں کو زیر کرنے کے ضرور کام آ رہی ہے۔ بلوچستان ہو یا شمالی علاقہ جات، فوج اپنے ہی علاقے تسخیر کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ فوج معاشی طور پر بہت بڑی طاقت بن چکی ہے۔ اس کے پاس بڑے بڑے کارخانے ہیں۔ سڑکوں کی دیکھ بھال اور ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں بھی چھا چکی ہے۔
اب تو کوئی بھی حکومت فوج کی مرضی کے بغیر نہیں بن سکتی۔ غریب ممالک میں فوج کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو حکومتوں کو غلام بنانے کے کام آتا ہے۔ اگر عالمی طاقتوں کو کسی ملک میں جمہوریت پھلتی پھولتی نظر آتی ہے یا پھر کسی ملک میں اسلامی حکومت بننے کا شائبہ تک ہوتا ہے تو وہاں پر فوج کی مدد سے دنیا کی بڑی جمہوریتیں ڈکٹیٹرشپ قائم کر دیتی ہیں۔ اس کی مثال مراکش اور مصر ہمارے سامنے ہے۔ یہی حال پاکستان میں ہے جہاں سامنے تو جمہوریت نظر آ رہی ہے مگر پسِ پردہ ابھی بھی ڈکٹیٹرشپ ہے۔ اور ڈکٹیٹرشپ بھی اس فوج کی جس کے ڈوری کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔