پہلی حکایت کسی منڈی میں ایک دکاندار کا قول تھا کہ ”کریئے تو ڈریئے نہ کریئے تو زیادہ ڈریئے“۔ ایک سنار کی دکان اس کے قریب تھی جو اکثر اس قول کا مذاق اڑاتا۔ ایک روز قیمتی ترین لباس پہنے قیمتی ترین سواری سے اتر کر گاہک سنار کی دکان میں داخل ہوا۔ صاحب کے ساتھ ایک ملازم بھی بچے کو کندھے سے لگائے موجود تھا۔ امیر گاہک نے بہت سے زیورات خریدے اور گاڑی میں رکھوا دیئے لیکن ادائیگی کے وقت معلوم ہوا کہ اس کا بٹوہ غائب ہے۔ امیر گاہک نے اپنا ملازم اور بچہ دکان پر چھوڑا اور کہا ”ابھی رقم لے کر آتا ہوں“۔ ملازم نے اس بچے کو جو کندھے سے لگا سو رہا تھا، دکان میں پڑے دیوان پر لٹایا اور خود رفع حاجت کے لئے باہر نکلا اور غائب ہو گیا۔ شام ہونے کو آئی لیکن نہ گاہک کا کچھ پتہ، ملازم بھی غائب اور بچہ بھی مسلسل سو رہا تھا۔ سنار نے فکرمند ہو کر بچے کو اٹھایا تو وہ مردہ تھا۔ سنار کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ حواس باختہ بیٹھا تھا کہ دولت مند گاہک اور ملازم دونوں پہنچ گئے اور بچے کی لاش دیکھ کر دکاندار کا گریبان پکڑ لیا کہ تم نے بچے کو گلا گھونٹ کر مارا ہے۔ سنار ان کے پاؤں پڑ گیا اور بڑی منت سماجت کے بعد اچھی خاصی رقم اپنے ہاتھ سے دے کر جان چھڑائی۔ تب یہ بات اس کی سمجھ میں آئی کہ برباد ہو چکے معاشروں میں ”کریئے تو ڈریئے اور نہ کریئے تو زیادہ ڈریئے“ کا کیا مطلب ہے۔

 دوسری حکایت ایک بادشاہ کسی فقیر کی خدمت میں کھانا لے کر حاضر ہوا۔ فقیر نے آئینہ منگوایا اور مرغن شاہی کھانے کا ایک لقمہ لے کر اس آئینے پر مل دیا۔ آئینہ بری طرح دھندلا گیا تو فقیر نے اپنی جو کی خشک روٹی کے ساتھ آئینہ بالکل صاف کرتے ہوئے کہا ”اے بادشاہ! جو کھانے آئینے خراب کر دیتے ہوں وہ دل کو بھی خراب اور میلا کر دیتے ہوں گے اس لئے میں اسے ہاتھ نہیں لگاؤں گا“۔ بادشاہ نے نادم سا ہو کر پوچھا ”میرے لائق کوئی خدمت ہو تو حکم فرمائیں“ ۔ فقیر نے کہا ”اے نیک دل بادشاہ ! مکھیاں اور مچھر مجھے بہت تنگ کرتے ہیں، انہیں حکم دو کہ مجھے ستایا نہ کریں“ بادشاہ نے کہا ”ان پر تو میرا بھی بس نہیں چلتا“ ۔ فقیر مسکرایا اور کہا ”اگر ایسے حقیر ترین جانداروں پر بھی تیرا حکم نہیں چلتا تو پھر میں اور کس چیز کے لئے تیری مدد مانگوں“۔

تیسری حکایت شطرنج کے موجد سے حاکم شہر نے کہا ”مانگ کیا مانگتا ہے“۔ اس نے کہا شطرنج کے 64 خانے ہیں۔ اس کے پہلے خانے میں ایک چاول، دوسرے خانے میں پہلے خانے سے دوگنے اور تیسرے خانے میں دوسرے سے دوگنے یعنی ہر آئندہ خانے میں گزشتہ خانے سے دو گنے چاول رکھ کر 64 خانوں کے برابر چاول مجھے بخش دیں۔ حاکم نے بظاہر اس حقیر مطالبہ کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے غصہ سے کہا ”اس قدر قلیل مطالبہ ہمارے شایان شان نہیں تم کسی بڑے انعام کی مانگ کرو“۔ شطرنج کے موجد نے عرض کیا کہ جس مطالبہ کو حضور حقیر سمجھ رہے ہیں ، اس کو تو دنیا بھر کے خزانے بھی پورا نہیں کر سکتے۔ حاکم حیران ہوا تو شطرنج کے موجد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ محاسبان شاہی سے حساب تو لگوائیں کہ کل کتنے چاول بنتے ہیں، پھر جب حساب لگایا گیا تو تقریباً 75 کھرب من کے قریب نکلا۔ قارئین میں سے جسے شبہ ہو تو وہ بذریعہ کمپیوٹر اس کی تصدیق یا تردید کر سکتا ہے۔ پانچ بڑے سالم چاولوں کی ایک رتی بنتی ہے اور یہ بھی احتیاطاً ذرا کم لکھا ہے ورنہ پرانے عام حساب میں 8چاول کی ایک رتی لکھی ہوئی ہے بہرحال نہ گھوڑا دور نہ میدان دور … حساب لگایئے اور کوئی کمی بیشی ہو تو مطلع فرمایئے۔