مشرقی پاکستان کی عليحدگی کا غم ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ بھٹو نے ملک کو مہنگائی کا تحفہ دے دیا۔ بھٹو چونکہ چالاک آدمی تھا لوگ اس کی باتوں میں آگئے اور بناں کسی احتجاج کے گھی، چینی اور آٹے کیلیے لائنوں میں لگ گئے۔

ہمیں یاد ہیں وہ دن جب ہم گھی، چینی اور آٹے کیلیےراشن کارڈ ہاتھ میں پکڑے راشن ڈپو جایا کرتے تھے۔ یہ راشن ڈپو صرف پی پی پی کےجیالوں کو الاٹ کئے گئے تھے۔ کئی دفعہ تو کئی کئی گھنٹے لائن میں لگنے کے بعد معلوم ہوتا کہ راشن ختم ہوگیا ہے۔ لیکن دوسری طرف اثرورسوخ والے لوگوں کو راشن گھر پہنچ جایا کرتا تھا۔

اسی طرح بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو عملی شکل دینے کیلیے روٹی پلانٹ بھی لگایا جس کی روٹی آٹے کی قلت کے باوجود مقبولیت حاصل نہ کرسکی اور یہ منصوب فلاپ ہوگیا۔

اسی روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کو لے کر انڈیا میں اسی نام سے منوج کمار نے فلم بنائی۔ اس فلم نے ریکارڈ بزنس کیا اور اس فلم کا شمار انڈیا کی کلاسیکل فلموں میں ہوتا ہے۔ اس کا ٹائٹل گانا “باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئ” بہت مشہور ہوا تھا۔ اس گانے کا ایک نعرہ یہ تھا “جیون کے بس تین نشان، روٹي کپڑا اور مکان”۔

کم عمری کی وجہ سے اس وقت تو ہمیں یہ پتہ نہ چل سکا کہ بھٹو دور میں گھی، چینی اور آٹے کی قلت کیوں پیدا ہوئی اور پھر دو چار سال بعد ایک دم ملک ان تینوں چیزوں  میں خود کفیل کیوں گیا۔ لیکن اب ہمیں  سمجھ آ گئی ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں پہلے چینی کا بحران کیوں پیدا ہوا اور اب آٹے کا بحران کیوں پیدا کیا جارہا ہے۔

 جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سب کیا دھرا حکومتی کاروباری لوگوں کا ہے جنہوں نے پہلے چینی کے کارخانوں سے چینی کے بحران میں کروڑوں بنائے اور اب آٹے کی ملوں سے آٹے کے بحران سے کروڑوں بنائیں گے۔ اپنا دل نہیں مانتا کہ کچھ عرصہ پہلے حکومت گندم کی ریکارڈ پیداوار کا کریڈٹ حاصل کرے اور اس کی مدد سے جی ڈي پی کی ترقی سات پوائنٹ سے اوپر دکھائے اور اس کے بعد اب گندم کی کمی کا بہانہ کرکے اس کی درآمد کا حکم دے دے۔ حیرانی ہوتی ہے وزارت پیداوار اور خزانہ کی عقل پر جسے اتنا بھی پتہ نہ چل سکا کہ ملک میں گندم کی کمی واقع ہونے لگی ہے۔

 اگر ملک میں ایک غریب پرور حکومت ہوتی تو اب تک دونوں وزارتوں کے سربراہوں کو برطرف کرکے ملک چین کی طرح سرعام پھانسی پر لٹکا کر عبرت کا نشان بنا دیتی۔ مگر کیا کیا جائے جب خربوزوں کی رکھوالی گیدڑوں کو بٹھایا جائے گا تو یہی حال ہوگا۔

 ہمارا اب بھی یقین ہے کہ اگر روٹی کپڑا اور مکان کا پرکشش نعرہ بھٹو کو بچے کھچے ملک کا سربراہ بنا سکتا ہے تو اب بھی فوجی حکومت کو گھر کی راہ دکھا سکتا ہے۔ مگر شرط اس نعرے کو کیش کرانے کی جرات کی ہے اور یہ جرات اسی میں پائی جائے گی جو دوغلے پن کا شکار نہیں ہوگا۔ اگر آج حزب اختلاف روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو لے کر میدان میں اتر آئے تو موجودہ حکومت کی بساط چند دنوں میں لپیٹ دے گی اور اسے سپریم کورٹ کے سہارے کی بھی ضرورت پیش نہیں آۓ گی۔

آفرین ہے اپنے عوام پر جو مہنگائی کی چکی میں پس کر بھی واویلا نہیں مچارہے۔  یہ خاموشی موجودہ ڈکٹيٹروں کی ہمت بندھائے ہوئے ہے تبھی تو آٹے کے تاریخی بحران کے دوران بھی حکمرانوں کے چہرے پر ملال تک نہیں ہے۔