آج ٹونٹی 20 ورلڈ کپ 2007 کے فائنل میں پاکستان ایک کانٹے دار میچ میں بھارت سے ہار گیا۔ اس میچ نے کئی دفعہ پلٹے کھا کر بھارتی سٹہ بازوں کے تو مزے کردیے ہوں گے مگر پاکستانی کھلاڑیوں اور حکومت کو بہت نقصان پہنچایا۔ پاکستانی کھلاڑی اگر فائنل جیت جاتے تو ان کا پاکستان میں بادشاہوں جیسا استقبال ہوتا اور ہمارے مطلق العنان حکمران یعنی بادشاہ ان پر نوٹوں کی بارش کردیتے۔ دوسری طرف پاکستانی حکومت بھی لوگوں کو چند دن اس جیت کی خوشی میں سرشار رکھ کر صدر کے الیکشن کے کرائسسز سے نکل جانے کی کوشش کرتی۔

ہم نے سارا میچ دیکھا اور میچ کے آخری چار اوورز میں ہمارے دل کی دھڑکنیں واقعی تیز ہو چکی تھیں۔ پہلے تو پاکستان کے بڑے رن ریٹ اور جلد وکٹیں کھونے نے ہمارے دل کو دھڑکایا پھر مصباح کے چھکوں نے اتنا خوش کیا کہ دل دھڑ دھڑ کرنے لگا۔ دل کی دھڑکن اس وقت رک گئ اور ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے جب مصباح ایک غیرضروری شاٹ کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوگئے اور پاکستان میچ ہار گیا۔

میچ میں بھارت نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور ابتدا میں اوپنرز نے اچھا کھیل کر بھارت کا پلہ بھاری رکھا لیکن بعد کے اوورز میں پاکستانی باؤلرز خاص کر عمر گل اور شاہد آفریدی نے بھارت کو صرف اتنا سکور  کرنے دیا جتنا پاکستانی کپتان کی نظرمیں حاصل کیا جاسکتا تھا۔ پاکستان نے شروع میں دو وکٹیں گنوا دیں مگر نذیر نے اچھا کھیل کر رن ریٹ کو تب تک برقرار رکھا جب تک یونس نے اسے رن آؤٹ نہیں کروا دیا۔ اس کے بعد یونس، کامران، شعیب اور آفریدی ریت کی دیوار کی طرح ڈھیر ہوگئے۔ میچ پاکستان کے ہاتھ سے نکلتا ہوا دکھائی دیا مگر ایک بار پھر مصباح نے جارحانہ بیٹنگ کرکے تب تک پاکستان کو میچ جیتنے کی امید دلائی رکھی جب تک آخری اوور کی ایک بال پر رسکی اور غیرزمہ دارانہ شاٹ کھیل کر اننگز ختم نہیں کردی۔ یہ مصباح الحق ہی تھے جو ابتدائی راؤنڈ کے میچ میں آخری دو بالوں پر ایک رن نہ بنا سکے اور انڈیا نے وہ میچ بھی بال آؤٹ میں تین صفر سے جیت لیا۔

فائنل جیتا جاسکتا تھا اگر آخری اوور سے پہلے مصباح الحق کو کوچ یا کپتان کی طرف سے مفید مشورے پہنچائے جاتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مصباح اچھا کھیلے مگر آخری جو شاٹ انہوں نے کھیلی اس کی ضرورت نہیں تھی۔ اس طرح کی شاٹ پر چھکے کیلیے بہت بڑی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے دوسرے اس پوزیشن پر جب فیلڈر بھی کھڑا ہو تو یہ شاٹ مزید رسکی ہوجاتی ہے۔

عمر گل اور سہیل تنویر کو بھی دونوں بال سیدھے بلے سے کھیلنے چاہیے تھے۔ جس طرح کی شاٹس انہوں نے کھیلی وہ ماہر بلے باز کھیل سکتا ہے ایک باؤلر نہیں۔

یونس خان نے رن ریٹ کو کم کیا اور عامر نذیر کو رن آؤٹ کروا کر دوہرا نقصان کر دیا۔  کامران اکمل کو ون ڈاؤن بھیج کر غلطی کی گئ کیونکہ وہ کافی عرصے سے آؤٹ آف فارم ہیں۔

ہربھجن کی جس طرح مصباح نے پٹائی کی اسی طرح یونس اور شعیب کو بھی کرنی چاہیے تھی۔ مصاح نے جارحانہ کھیل کر یہ ثابت کردیا کہ سپنر کی سڑیٹ بال پر چھکا آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ پتہ نہیں یونس اور شعیب نے اس طرح کے چھکے کیوں نہ لگائے۔

بہرحال پاکستان نے خوب مقابلہ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ قسمت کی دیوی اس دفعہ بھی بھارت پر مہربان رہی۔ اسی ٹورنامنٹ میں پہلے میچ میں بھی بھارت خوش قسمتی سے میچ جیتا تھا جس پر ہم نے ٹوٹی کہاں پہ کمند کے نام سے پوسٹ لکھی تھی۔

ہم نے ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے پاکستانی ٹونٹی 20 کرکٹ ٹیم کیلیے مفت مشورے اور ٹونٹی 20 ورلڈ کپ کیلیے پاکستانی کرکٹ ٹیم کا جائزہ کے عنوان سے پوسٹ لکھی تھیں مگر چونکہ ہمارا بلاگ ابھی اتنا مشہور نہیں ہوا کہ وہ ہماری ٹیم یا مینجمنٹ کی نظروں سے گزرتا اسلیے سارے مشورے بیکار گئے۔ مگر ایک بات سچ ہے کہ جن جن کمزوریوں کی نشاندہی ہم نے کی تھی وہی ہماری ٹیم کی چیمپیئن شپ میں ناکامی کا سبب بنیں۔

آئیں اس ٹورنامنٹ سے سیکھے گئے اسباق کو یہاں لکھ دیں تاکہ آنے والے کھلاڑی اور انتظامیہ اس سے مستفید ہوسکیں۔

1۔ ٹونٹی 20 کے کھیل کیلئے نوجوان اور جارحانہ کھیلنے والے کھلاڑی ہونے چاہئیں۔ یہ بات سلمان بٹ اور یونس خان کے کھیل کی ناکامی سے ثابت ہوگئ۔ یونس کے کھیل سے ثابت ہوگیا کہ یوسف کو ٹيم میں شامل نہ کرنا اچھا فیصلہ تھا۔ اس طرح یوسف کے نکالے جانے پر جس طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا وہ غلط ثابت ہوئے۔

2۔ شاہد آفریدی کی طرح کا ٹلے باز ٹیم میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔  ہاں ان کی باؤلنگ زبردست رہی۔

3. اوپنرز منجھے ہوئے ہونے چاہئیں۔

4۔ عمر گل نے اس طرح کی باؤلنگ کرکے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اس طرح کے ٹورنامنٹ میں پرفیکٹ یارکرز کرانے والے باؤلرز کو شامل کرنا چاہیے۔

5. رن ریٹ کو ہاتھ سے نہیں نکلنے دینا چاہیے چاہے ٹیم جلد ہی آؤٹ ہوجائے۔

6. کھلاڑیوں کو کوچ کے مشورے پہنچانے کا بندوبست ہونا چاہیے۔