آج سپریم کورٹ نے صدر کے دو عہدوں کے متعلق دائر درخواستیں تکنیکی بنیادوں پر مسترد کردیں۔ اس فیصلے ميں تین ججز نے اختلافی نوٹ لکھا۔ سپریم کورٹ نے تو یہ فیصلہ اس قانون کی رو سے دیا جسے ایم ایم اے نے پاس کرانے میں حکومت کی مدد کی۔ یہ الگ بات ہے کہ صدر مشرف اس حمایت کے بدلے وردی اتارنے کے وعدے سے بعد میں مکر گئے۔ لیکن بعد کے حالات تو یہ شک بھی پیدا کرتے ہیں کہ وعدے سے مکرنا بھی شاید اسی ڈیل کا حصہ ہو۔ بہرحال سپریم کورٹ کا کام آئین کو پڑھ کر فیصلہ دینا تھا اس نے دے دیا۔ اس فیصلے کو قانونی تو کہا جاسکتا ہے مگر عوامی نہیں کیونکہ عوام کی اکثریت اس بات کے حق میں ہے کہ فوج کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔

ویسے اخلاقی طور پر تو یہ جواز بنتا تھا کہ صدر موجودہ اسمبلیوں سے خود کو دوبارہ منتخب نہ کراتے کیونکہ ان کے پاس یہ سہولت موجود تھی کہ وہ پہلے عام انتخابات کراتے اور تب تک اپنے عہدے پر قائم رہتے۔ عام انتخابات کے بعد وہ اگلی اسمبلیوں میں صدارت کا انتخاب لڑتے۔ صدر نے اخلاقیات کا جنازہ اس لیے نکالا کہ ان کے وردی میں رہنے کی میعاد 15 نومبر کو ختم ہورہی تھی اور انتخابات کا انعقاد اس کے بعد ہونا تھا۔ اسلیے جنرل صاحب کو پتہ تھا کہ وردی اتارنے کے بعد دو سال تک وہ صدارت کا الیکشن نہیں لرسکیں گے اور اگر کسی طرح انہوں نے الیکشن میں حصہ لے بھی لیا تو اگلی اسمبلیوں سے شاید وہ منتخب نہ ہوسکیں۔ ان سب مجبوریوں کی وجہ سے جنرل صاحب نے انہی اسمبلیوں سے منتخب ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

اب ہمارا فرض یہ بنتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو من و عن قبول کرلیں اور آنے والے وقت کی پلاننگ شروع کردیں۔ یعنی صدر کے انتخاب کو الیکشن کمیشن میں کس طرح چیلنچ کرنا ہے اور اگر الیکشن کمیشن اعتراضات مسترد کردیتا ہے تو اسے کورٹ میں کیسے چیلنج کرنا ہے۔ دوسرے اگر موجودہ حکومت انتخابات وقت پر کراتی ہے تو سیاست دانوں کو اس کی تیاری کرنی چاہیے اور اگلی اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کرکے 1973 کے آئین کو اس کی اصل صورت میں بحال کردینا چاہیے۔

یہ کام آسان اسلیے نہیں ہے کیونکہ ہماری اپوزیشن متحد نہیں ہے اور ہرکوئی اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہا ہے۔ پی پی پی کسی بھی طریقے سے حکومت میں شامل ہونا چاہتی ہے۔ ایم ایم اے بھی اپنی صوبائی حکومتوں کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ نواز والے بھی چاہتے ہیں کہ حکومت انہیں ملے۔ ایم کیو ایم تو ویسے ہی جنرل مشرف کی جماعت ہے۔ اسلیے حالات یہی بتاتے ہیں کہ اسی شور شرابے میں جنرل صاحب دوبارہ پانچ سال کیلیے صدر بن جائیں گے اور امید ہے کہ سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے عہد کے مطابق ایک سویلین صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے۔

ہمارے خیال میں جنرل مشرف کا اگلے پانچ سال کیلیے سویلین صدر بن جانا بھی کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ یہ وہی ٹارگٹ ہے جو ایم ایم اے نے سترہویں ترمیم کے بدلے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

ایک مایوس کن صورتحال یہ ہے کہ عوام الناس ان تمام معاملات سے بے خبر اپنی روزی روٹی کے چکروں میں پڑی ہوئی ہے۔ نہ سیاسی پارٹیاں ان کو متحرک کرسکی ہیں اور نہ خود لوگوں میں مہنگائی، بیروزگاری کیخلاف سڑکوں پر نکلنے کی ہمت پیدا ہوئی ہے۔ شاید ابھی تک مہنگائی ان کے معمولاتِ زندگی کو اتنا متاثر نہیں کرسکی کہ وہ احتجاج کیلیے سارے کام چھوڑ کر سڑکوں پر آجائیں۔ سیاسی پارٹیوں کی یہ سب سے بڑی ناکامی ہے کہ وہ عوام کو متحرک نہیں کرسکیں۔ دراصل اب ہم لوگ تن آسان ہوتے جارہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کی طرح ہمارے تمام کام خدا ہی کرے اور ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے۔ جس دن ہماری یہ سوچ تبدیل ہوگئی اس دن ملک میں جمہوریت آجائے گی اور عوام حکومت کا احتساب بھی کرنے لگیں گے۔ تب تک دال روٹی کھایے اور لمبی تان کر خراٹے ماریے۔