کچھ روز سے پاکستانی سیاست میں ایک عجیب قسم کی کھچڑی پک رہی ہے اورمہنگائی کے مارے عوام صرف آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب وہ اس کھچڑی سے بھوک مٹائیں گے۔ بیچاروں کو یہ معلوم نہیں کہ یہ کھچڑی صرف ایلیٹ کلاس کیلیے ہے۔  انہیں صرف بچا کھچا ملے گا اور وہ بھی ان پلیٹوں کو چاٹ کر جو انہیں دھونے کیلیے دی جائیں گی۔

 ایک طرف جنرل مشرف کا صدارتی انتخاب سپریم کورٹ میں چیلنچ ہوچکا ہے، دوسری طرف اے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے نامکمل استعفے دیے ہیں یعنی ایم ایم اے کی سرحد حکومت ابھی تک قائم ہے۔ ادھر پی پی پی اور جنرل مشرف کی ڈیل پر ابھی تک مذاکرات ہورہے ہیں۔ لیکن ان مذاکرات کو مسلم لیگ ق والے دور سے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں اور اپنے قائد جنرل مشرف کے حکم کا انتظار کررہے ہیں۔

عام پبلک مہنگائی کا شکار ہے۔ شاید یہ مہنگائی کا ہی اثر ہے کہ اس دفعہ ریکارڈ تعداد میں لوگ اعتکاف بیٹھے ہیں۔ ہوسکتا ہے اعتکاف بیٹھنے والوں میں سے کچھ نے سوچا ہو کہ اس دفعہ ایک تیر سے دوشکار کرتے ہیں یعنی خدا کی عبادت اور مفت کا کھانا۔ اس دفعہ صرف منہاج القرآن کے ادارے میں سنا ہے تین ہزار سے زیادہ لوگ اعتکاف بیٹھے ہیں اور ان کی دیکھ بھال اور کھانے پینے کا وسیع پیمانے پر بندوبست کیا گیا ہے۔

اب اگر پی پی پی کی جنرل مشرف سے ڈیل ہوجاتی ہے تو اس کے بدلے جنرل مشرف صدر بن جائیں گے اور بینظیر کو مقدمات سے خلاصی مل جائے گی لیکن اس ڈيل کا خمیازہ مسلم لیگ ق اور خاص کر چوہدریوں کو بھگتنا پڑے گا۔ انتخابات کے دوران اور اس کے بعد مسلم لیگ ق اور پی پی پی کی شراکت دیکھنے کے قابل ہوگی۔ شیخ رشید جو کئی دفعہ کہ چکے ہیں کہ وہ پی پی پی کیساتھ ملکر نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ بینظیر نے انہیں جیل بھجوایا تھا۔ لیکن اب شاید اپنے قائد جنرل مشرف کے کہنے پر وہ یہ کڑوی گولی بھی نگل جائیں۔ چوہدری کس طرح بینظیر کیساتھ شراکت اقتدار کریں گے اور یہ شراکت کس طرح پروان چڑھے گی یہ تجربہ سیاست کے طالبعلموں کیلیے بہت اہم ہوگا۔

 مسلم لیگ ن والوں کے مقدمے اگر ختم نہ کیے گیے تو چوہدریوں کی پھر سبکی ہوگی جو سب کے مقدمے ختم کرنے کا بیان دے چکے ہیں۔ لیکن چوہدری یہ بھی چاہتے ہیں کہ نواز شریف وطن واپس نہ آئیں تاکہ کم از کم ایک حریف تو ان کے راستے روڑا نہ اٹکائے رہے۔

 بینظیر اس ڈیل کے بعد وطن واپس آکر پی پی پی کی انتخابی مہم کو خود چلائیں گی اور مسلم لیگ ق والوں پر کاری ضرب لگنے کا امکان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ چوہدری اس وار کو کیسے سہ پائیں گے۔ ادھر انتخابات میں مسلم لیگ ن نواز شریف کی غیرموجودگی میں کوئی خاص کارکردگی دکھاتی نظر نہیں آتی۔

 اس سیاسی کھچڑی کے پکنے کے بعد اور کھانے سے پہلے دعا کیلیے مولانا فضل الرحمٰن کی ضرورت پڑے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مولانا دعا پڑھتے ہیں یا بدعا اوراس عمل کے دوران کھچڑی سے اپنا کتنا حصہ الگ کرتے ہیں۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سپریم کورٹ صدارتی انتخاب کچھ عرصے کیلیے ملتوی کردے اور بعد میں جنرل مشرف کے حق میں فیصلہ دے دے۔ اس صورتحال میں مولانا فضل الرحمٰں کس طرح سرحد حکومت بچائیں گے یہ منظر بھی سیاست کے طالبعلموں کیلیے دیکھنے والا ہوگا۔

اس ساری صورتحال سے اگر فائدہ کسی کو ہوگا تو وہ ایم کیو ایم ہوگی جو بناں خرچ کئے کھچڑی مزے سے کھائے گی اور پیٹ بھر کر کھائے گی کیونکہ وہ اس سے پہلے تمام حکومتوں میں شامل رہ چکی ہے اور اسے پتہ ہے کہ کس طرح کھچڑی سے اپنا حصہ حاصل کرنا ہے۔ 

ابھی تک کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس سیاسی کھچڑی کا مستقبل کیا ہوگا اور یہ کھچڑی کس کی بھوک مٹائے گی اور کس کو بھوکا رکھے گی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سیاسی کھچڑی پکائے کوئی اور کھائے کوئی۔ یعنی امیر خسرو کیمطابق محنت کوئی کرے اور پھل کوئی اور پائے۔

کھچڑی پکائی جتن سے، چرخا دیا جلا

آیا کتا کھا گیا، تو بیٹھی ڈھول بجا

اسلیے سیاسی باورچیو ہوشیار رہو اور اپنی کھچڑي سے ایک منٹ کیلیے بھی آنکھ ادھر ادھر نہ کرنا وگرنہ کتا نہیں  فی زمانہ کتے تمہاری کھچڑی سے پیٹ بھر لیں گے اور تم بھوکے کے بھوکے رہ جاؤ گے۔