آخرکار جنرل مشرف نے اپنی زندگی کا ایک اور بہت بڑا یوٹرن لے کر قومی [ذاتی}مصالحتی آرڈینینس پر دستخط کردیے اور اس طرح ہمارے تجویز کردہ عوامی آرڈینینس کو مسترد کردیا۔

 مندرجہ بالا تصویر ہم فائل سے پرنٹ کررہے ہیں جس میں جنرل مشرف اپنے صدارتی پیپرز پر دستخط کررہے ہیں۔بالکل اسی طرح ہم ٹی وی چینلز پرآج کل دیکھ رہے ہیں۔  الطاف بھائی، بینظیر یا نواز شریف کے انٹرویوز کی خبر جب نشر کی جاتی ہے تو اس وقت ان کی پرانی ویڈیو دکھائی جاتی ہے جس پر فائل ویڈیو لکھا ہوتا ہے۔ عام آدمی اس ویڈیو سے یہی سمجھتا ہے کہ یہ خبر والی ویڈیو ہے۔

اس تصویر میں صدارت کی درخواست پر دستخط کی تقریب ایسے دکھائی گئی ہے جیسے پہلے وقتوں میں کوئی بہت بڑا قومی بل سائن کرتے وقت بنائی جاتی تھی۔  ایک تصویر ہمیں قائداعظم کی بھی یاد ہے جس میں ان کو پاکستان کی آزادی کی تقریب میں دستخط کرتے دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح بھٹو کی یادگار تصویر جس میں اس نے پاکستان کے آئین کی کاپی پر دستخط کیے تھے۔ ایک تصویر جس نے پاکستان کو بہت بدنام کیا وہ جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی تقریب کی تھی۔ اور ایک تصویر یہ ہے جس میں صدر کو اپنا مفاد حاصل کرتے دکھایا گیا ہے۔

اس طرح کی تقاریب میں استعمال ہونے والے قلم لوگ اسی طرح سنبھال کر رکھ لیتے تھے جس طرح آجکل کرکٹ میچ جیتنے والی ٹیم وکٹیں سنبھال کر رکھ لیتی ہے۔ اب معلوم نہیں صدارتی پیپرز اور پھر قومی مصالحتی آرڈینینس پر دستخط کیلیے استعمال ہونے والے قلم کس کے حصے میں آئے ہوں گے اور مستقبل میں وہ کس میوزیم میں رکھے جائیں گے۔

اس تصویر پر لوگوں نے مندرجہ ذیل تبصرے کئے ہیں،

“ہاہا شوکت عزیز باڈی گارڈ”

“یہ صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے کہ ایک جنرل صدارتی الیکشن لڑے”

“جنرل مشرف اور اس کے حواری، بولو چیز”

“جنرل مشرف اور لوٹا کمپنی”

“جنرل مشرف ملٹری یونیفارم میں کیوں نہیں ہے؟”

“یہ سو فیصد یقینی ہے کہ اگر صدر بش بھی اپنے صدارتی پیپرز پر دستخط کرے گا تو یہ لوگ ادھر بھی اسے سپورٹ کرنے کیلیے موجود ہوں گے۔ یہی لوگ 1947 سے پہلے بھی تھے اور 1947 کے بعد بھی ہیں۔ کچھ بدلنے والا نہیں ہے”۔

دیکھا لوگوں نے کس طرح کے کمنٹس پاس کیے ہیں۔ یہ سب اس تصویر کا اعجاز ہے جس نے ہمیں آج کی پوسٹ لکھنے میں مدد دی۔