پچھلے دنوں امام مکہ نے دنیا بھر کے اماموں کو نماز تراویح میں لمبی لمبی رقت آمیز دعائیں مانگنے سے منع فرمایا اور کہا کہ دعا کو لمبا نہ کیا کریں اور نہ ہی دعا میں دنیا جہان کے مسائل کا اپنی دعاؤن میں ذکر کیا کریں۔ ہمارے اندازے کے مطابق جب دشمنان اسلام نے دیکھا کہ مسلمان اپنی دعاؤں میں ان کے مظالم اور ناانصافیوں کی بات کررہے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف جاری مظالم کو ختم کرنے کیلیے طاقت کی دعا مانگ رہے ہیں تو انہیں یہ فکر لاحق ہوگئی کہ اس طرح مسلمانوں میں انتہا پسندی بڑھے گی۔ یہی وجہ تھی کہ دشمنان اسلام کو امام کعبہ کے منہ سے یہ حکم اگلوانا پڑا۔

ویسے دشمنان اسلام کو ان لمبی لمبی اور رقت آمیز دعاؤن سے گبھرانا نہیں چاہیے کیونکہ یہ دعائیں بے اثر ہوتی ہیں۔ ان دعاؤں کو نہ پہلے کبھی قبولیت نصیب ہوئی ہے اور نہ اب ہوگی۔ کیونکہ یہ دعائیں صرف زبانی کلامی ہوتی ہیں اور ان پر عمل کرنے کیلیے ایک بھی مسلمان تیار نہیں ہوتا۔

ابھی ستائیسویں رمضان کی رات مسجد نبوی، مسجد حرام اور دنیا بھر کی ہزاروں مساجد میں کروڑوں مسلمانوں نے کچھ اس طرح کی دعائیں مانگیں اور گڑگڑا کر مانگیں۔

 “اےاللہ فلسطینی مسلمانوں کو یہودیوں پر فتح عطا فرما، اے اللہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو کافروں سے آزادی دلا، اے اللہ چیچنیا کے مسلمانوں کو روسی کافروں کے مقابلے میں فتح نصیب فرما، اے اللہ گوئٹاناموبے کے مسلمانوں کو قید سے آزادی عطا فرما، اے اللہ مسلمانوں کی تمام تحریکوں کو کافروں کے مقابلے میں فتح نصیب فرما،اے اللہ مسلمانوں کو اتنی طاقت عطا فرما کہ وہ تیرے بیت المقدس کو یہودیوں سے آزاد کراسکیں، اے اللہ مسلمانوں کو علم سے مالا مال کردے، اے اللہ مسلمانوں کے گناہ معاف کرکے انہیں دنیا کے سارے خزانوں کا مالک بنا، اے اللہ مسلمانوں کو جدید ٹیکنالوجی کے شر سے محفوظ رکھ، اے اللہ کافروں پرمسلمانوں کو فتح نصیب فرما”

یہ وہ دعائیں ہیں جو جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے سنتے آرہے ہیں اور ان میں ایک بھی دعا ابھی تک اللہ تعالٰی نے قبول نہیں فرمائی۔ ابھی تک مسلمان نہ تو بیت المقدس کو آزاد کراسکے ہیں اور نہ ہی کسی بھی جنگ میں فتح حاصل کرسکے ہیں۔

کیا وجہ ہے کہ پچیس لاکھ مسلمانوں کی بیت اللہ میں مانگی گئی دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ کیا وجہ ہے کہ کروڑوں مسلمانوں کے سجدے زمین پر ٹکریں مارنے کے سوا کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم مسلمان ہر جگہ ذلیل وخوار ہورہے ہیں؟

یہ سوالات اس دفعہ ہماری عید ملن پارٹی میں زیربحث تھے۔ سب لوگوں نے اپنی اپنی رائے دی۔ آخر میں ایک مہمان نے اپنے دوست کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ سنا کر تمام سوالات کا ایک ساتھ جواب دے دیا۔

ایک اردنی مسلمان اس دفعہ موسم گرما میں اپنے ملک سیٹل ہونے کیلیے امریکہ سے واپس گیا۔ ابھی چند دن ہوئے تھے کہ اس کی بہن نے اسے رنگین ٹٰی وی خرید کر لانے کی درخواست کی۔ اردنی نے ایک سٹور سے ٹی وی آرڈر کیا اور ڈیلوری کا نتظار کرنے لگا۔ جب ٹی وی گھر پہنچا تو وہ بلیک اینڈ وہائٹ نکلا اور وہ بھی استعمال شدہ۔ اردنی نے اسی وقت ٹی وی اٹھایا اور سٹور پر لیجاکرمالک سے شکایت کرنے لگا۔ سٹور مالک نے الٹا اس کو ڈانٹا کہ وہ اس کیساتھ دھوکا کررہا ہے۔ اتنی دیر میں اردنی کو اس کے ایک امریکی دوست کا موبائل پر فون آگیا اور وہ انگریزی میں اس کے ساتھ بات کرنے لگا۔ جب سٹور مالک نے اردنی کو انگریزی بولتے دیکھا تو وہ ذرا سا سہم گیا۔ اردنی نے سٹور مالک کے ڈر کو بھانپ لیا اور فون بند کرنے کے بعد اسے کہنے لگا کہ وہ امریکن ایمبیسی میں کام کرتا ہے اور اگر وہ رنگین ٹی وی نہیں دیتا تو وہ اس کی شکایت اپنے امریکی باس سے کرے گا۔ یہ کہ کر وہ اپنی کار کی طرف چل پڑا۔ ابھی وہ کار میں بیٹھا ہی تھا کہ سٹور مالک اس کے پاس آکر کہنے لگا کہ آپ تو خواہ مخواہ ناراض ہوگئے۔ آپ فکر نہ کریں ٹی وی آپ کے گھر آج ہی پہنچ جائے گا۔ جب اردنی یہ کہانی سنانے کیلیے اپنی بہن کے گھر پہنچا تو رنگین ٹی وی پہلے ہی اس کے گھر پہنچ چکا تھا۔ اس کے بعد اردنی نے اپنے ملک میں سیٹ ہونے کا ارادہ ملتوی کردیا اور واپس امریکہ آگیا۔

بقول مہمان کے اردنی واقعہ سنانے کے بعد کہنے لگا کہ ہم یونہی دنیا میں ذلیل نہیں ہورہے۔ جب تک مسلمان اپنے کردار کو ٹھیک نہیں کریں گے اور لین دین میں ایمانداری سے کام نہیں لیں گے یونہی مار کھاتے رہیں گے۔

ہم جانتے ہیں کہ اسلام مسلمان کو بے ایمانی کی تجارت، ملاوٹ، وعدہ خلافی اور دھوکے بازی سے منع فرماتا ہے مگر آج حاکم سے لیکر ایک عام مسلمان تک ان معاشرتی برائیوں کا شکار ہو چکا ہے۔ جب تک مسلمان کردار کے غازی نہیں بنیں گے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ بقول علامہ اقبال کے

مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا

اور

اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتار کا غازی یہ تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا