ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی ایک معاشی تجزیہ نگار ہیں ان کا کالم معیشت کی جھلکیاں جنگ اخبار میں چھپتا ہے۔ ان کے ایک تازہ کالم سے ایک اقتباس۔ اس سے پتہ چلے گا کہ جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو وعدے کیے وہ کس حد تک پورے ہوئے۔

بینکاری کے شعبے میں جنرل پرویز مشرف نے 17 اکتوبر 1999 کو جس ایجنڈے کا اعلان کیا تھا اور جو کارکردگی رہی وہ یہ ہے۔ (i) ایجنڈا۔ بینکوں کے قرض نادہندگان سمیت ایسے افراد جنہوں نے اپنے قرضے معاف کرائے ہیں وہ 4 ہفتوں میں تمام واجبات ادا کریں وگرنہ ان کے خلاف قانون کا آہنی ہاتھ حرکت میں آجائے گا اب 8 برس بعد صورتحال یہ ہے کہ ماضی میں معاف کرائے گئے قرضوں کی مد میں تو ایک پیسے کی بھی وصولی نہیں ہوئی الٹا 2000ء سے اب تک 110 ارب روپے سے زائد کے قرضے معاف کئے جا چکے ہیں اس تیز رفتاری سے بینکوں کے قرضوں کی معافی کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے قرضے معاف کرنے والوں میں نہ صرف وہ ممتاز سیاستدان شامل ہیں جو قومی مفاہمتی آرڈیننس 2007ء سے مستفید ہونگے بلکہ وہ بڑے تاجر، صنعت کار اور وڈیرے بھی شامل جن کے پاس ملک کے اندر خطیر رقوم کے اثاثے موجود ہیں جن کو فروخت کر کے بینکوں کے قرضے وصول کئے جا سکتے تھے۔ (ii) ایجنڈا ۔ 12 نومبر 1999 کے بعد بینکوں کے نادہندگان اور قرضے معاف کرانے والوں کے نام شائع کر دیئے جائیں گے یہ امر افسوسناک ہے کہ 8 برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ فہرست شائع نہیں کی گئی حالانکہ نواز شریف اور بینظیر کے دور میں یہ فہرست شائع ہوئی تھی صاف ظاہر ہے کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ معیشت کی بحالی کیلئے جنرل پرویز مشرف نے اپنی 17/اکتوبر 1999 کی تقریر میں چھ رہنما اصول متعین کئے تھے پہلا رہنما اصول سرمایہ داروں کے اعتماد کی بحالی کی حوصلہ افزائی سے متعلق تھا۔ہم گزشتہ کئی برسوں سے کہتے رہے ہیں کہ ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول بہتر بنانے کے بجائے بیرونی سرمایہ کاروں کو مراعات اور زیادہ شرح منافع دینے کی پالیسی اپنائی جائے چنانچہ وطن عزیز میں ”غیر معیاری اور پریشان کن“ بیرونی سرمایہ کاری آرہی ہے جنرل پرویز نے 29 مارچ 2000 کو تسلیم کیا تھا کہ بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری پر 80 فیصد تک سالانہ منافع کما رہے ہیں جبکہ بیرونی سرمایہ کاری کے ضمن میں گزشتہ چند ماہ کے دوران گورنر اسٹیٹ بینک، وفاقی وزیر تجارت اورایشین ڈولپمنٹ بینک نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے دوسری طرف کچھ ملکی صنعت کار صنعتی شعبے پرتوجہ مذکور کئے ہوئے ہیں جس سے سٹے بازی کی معیشت پروان چڑھ رہی ہے مصدقہ اطلاعات کے مطابق ملک میں کچھ برآمدی صنعتیں بند ہو چکی ہیں جبکہ صرف سائٹ کراچی کے صنعتی علاقے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے ایک درجن سے زائد صنعتکاروں نے اپنا کاروبار پاکستان سے باہر منتقل کر لیا ہے۔ رہنما اصول نمبر2- میں کہا گیاتھا ”قومی بچت میں اضافہ کیا جائے گا“ ہم اس ضمن میں یہ عرض کریں گے کہ معیشت کی شرح نمو تیز کرنے کیلئے گزشتہ کئی برسوں سے حکومت کی معاشی پالیسی کامحور یہ رہا ہے کہ عوام کی بچتوں کے بجائے اخراجات کرنے کی طرف راغب کیا جائے چنانچہ کنزیومر فنانس اسکیم کے تحت کئی سو ارب روپے کے قرضے بینکوں کی طرف سے جاری کئے گئے دوسری طرف شرح سود میں کمی کی ناقص پالیسی اپنانے سے کھاتے داروں کودی جانے والی شرح منافع میں زبردست کمی ہوئی چنانچہ بچتوں کی حوصلہ شکنی ہوئی قومی بچتوں کی شرح جو 2002-03 میں 20.8 فیصد تھی 2006-07 میں کم ہو کر 18.1 فیصد رہ گئی بچتوں کی شرح گرنے سے بیرونی وسائل پر انحصار بڑھ رہا ہے جوکہ نیک فال نہیں ہے۔ رہنما اصول نمبر 3- ٹیکسوں کے نظام کے متعلق تھا جنرل پرویز نے 15 دسمبر 1999 کو بھی کہا تھا کہ ایک ایسی ریاست اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی جہاں ٹیکس کی چوری عام ہو اور جہاں بعض طبقے ٹیکس دیتے ہی نہ ہوں حکومت گزشتہ 8 برسوں سے طاقتور طبقوں کی سیاسی حمایت حاصل اور برقرار رکھنے کیلئے ان کو چھوٹ اور مراعات دیتی رہی ہے چنانچہ پاکستان کا ٹیکسوں کا نظام بدستور استحصالی ہے یہ بات افسوسناک ہے کہ ٹیکس اور مجموعی ملکی پیداوار کا تناسب جو 2002-2003 میں 11.5 فیصد تھا گر کر 10.8 فیصد ہو گیا حکومت طاقتور سرمایہ داروں اور سٹے بازوں کی حمایت برقرار رکھنے کیلئے اسٹاک ایکسچینج کے کاروبارمیں بڑھوتی ٹیکس (گین ٹیکس) لگانے سے گریزاں ہے حکومت پاکستان کے اقتصادی سروے کے مطابق اس مد میں چھوٹ دینے سے صرف 2006-2007 میں قومی خزانے کو 112 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا حکومت ٹیکسوں کی وصولی کی مد میں تاریخی اوربے مثال کامیابیاں حاصل کرنے کے دعوے تسلسل سے کرتی رہی ہے۔ یہ دعوے صحیح نہیں ہیں حکومت اوراسٹیٹ بینک کی رپورٹوں کے مطابق 1995-96 میں ٹیکس اور مجموعی ملکی پیداوار کا تناسب 14.4 فیصد تھا جو 2006-07 میں کم ہو کر 10.8 فیصد رہ گیا۔ اگرگزشتہ 8برسوں میں ٹیکس اور مجموعی ملکی پیداوار کا وہی تناسب حاصل کیا جاتا جو 1995-96 میں بینظیر صاحبہ کے دور میں حاصل کیا گیا تھا تو گزشتہ 8 برسوں میں قومی خزانے کوتقریباً 1500 ارب روپے کی اضافی رقوم مل جاتیں جن سے غریب عوام کے لئے کیا کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رہنما اصول نمبر 4- میں کہا گیا تھا کہ حکومتی شعبے کے اداروں کو منافع بخش بنایا جائے گا لیکن حکومتی کوششوں کا محور یہ قرار پایاکہ ان اداروں کو فروخت کر دیاجائے البتہ حکومتی شعبے کے کچھ اداروں کی کارکردگی میں بہتری لانے کے غیر حقیقت پسندانہ دعوے کرنا شروع کر دیئے گئے مثلاً اکتوبر 2004میں کہا گیا کہ جب جنرل پرویز مشرف برسر اقتدار آئے توپی آئی اے کو 1.9 ارب روپے کے نقصان کا سامنا تھا لیکن جلد ہی اس نے 1.4 ارب روپے کا منافع کمایا اب 2007 میں پی آئی اے نے تسلیم کیاہے کہ وہ دیوالیہ ہو رہی ہے اوراس کے مجموعی نقصانات 32 ارب روپے ہیں