نواز شریف کو ایئرپورٹ سے ہی واپس بھیج کر اور بینظیر کے مقدمات ختم کرکے انہیں پاکستان آنے سے نہ روک کر سیاست کی بساط بچھائی جاچکی ہے۔ اس کھیل میں ابھی تک مسلم لیگ ق کا کوئی حصہ نظر نہیں آ رہا۔ جنرل مشرف کے اقتدار کو طول دینے اور ان کی حکومت پر اجارہ داری کو قائم رکھنے کیلیے یہ سارا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ لگتا ہے اگلے انتخابات میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں کرنے دی جائے گی اور اس طرح جنرل مشرف شائد مسلم لیگ ق اور پی پی پی کی مشترکہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں۔

 یہ الگ بات ہے کہ اس طرح کی حکومت چل سکے گی کہ نہیں۔ اگر چوہدریوں اور بینظیر کے ذاتی مفادات کو دیکھا جائے تو اس حکومت کے چلنے کے زیادہ امکانات ہیں کیونکہ اسی طرح یہ دونوں پارٹیاں دولت کی بندر بانٹ کرسکیں گی۔ اگر ان کے اختلافات بڑھ گئے تو پھر حکومت توڑنے کےسوا جنرل مشرف کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

 حکومت توڑنے کے نتیجے میں دوبارہ انتخابات میں مسلم لیگ ق اور پی پی پی میں سے کسی ایک کا دھرن تختہ ہوجائے گا اور کس کا ہوگا یہ جنرل مشرف کی بچھائی ہوئی بساط پر منحصر ہو گا۔

 مسلم لیگ ن کا کردار ابھی دور دور تک نظر نہیں آتا۔ اس سارے سیاسی گورکھ دھندے میں ایم ایم اے اور ایم کیو ایم کا کردار بھی دیکھنے والا ہوگا۔

اوپر بیان کیے گئے مجوزہ سیٹ اپ تبھی عملی شکل اختیار کریں گے جب سپریم کورٹ جنرل مشرف کے دوبارہ صدارتی انتخاب کو جائز قرار دے دے گی۔ ہمارے خیال میں تو سپریم کورٹ کے پاس کوئی دوسری چوائس ہے نہیں اور اسے جنرل مشرف کے حق میں فیصلہ دینا ہی پڑے گا۔

سیاست میں آدمی کو کیا کیا برداشت کرنا پڑتا ہے اور ذاتی مفاد کیلیے آدمی کو کتنا گرنا پڑتا ہے یہ اگلے چند روز کے واقعات بتائیں گے۔ مسلم لیگ ق اپنے دل پر پتھر رکھ کر بینظیر کو پاکستان واپسی کا کھلا راستہ دے رہی ہے۔ سندھ کی حکومت نہ تو بینظیر کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے بلکہ اس کے ابھی تک کے آرڈرز کراچی کی مقامی حکومت نے ماننے سے ہی انکار کردیا ہے۔ ایم کیو ایم بینظیر کو خوش آمدید کہ کر ایک طرف اگر جنرل مشرف کا دل جیت رہی ہے تو دوسری طرف آنے والے دنوں میں بینظیر کی حکومت میں شامل ہونے کی راہ ہموار کررہی ہے۔ ایم کیوایم حکومت کیلیے پی پی پی کے سارے سابقہ مظالم کو بھول چکی ہے اور اپنے کارکنان کی قربانیوں کے بدلے حکومت میں رہنے کے پلان بنا رہی ہے۔

اس ساری سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں پی پی پی پیٹریاٹ والے حصہ نہیں لے رہے۔ وہ آنے والے وقت کا انتظار کررہے ہیں جب ان کے لگائے ہوئے زخم ایک بار پھر بھلا کر انہیں پی پی پی میں شامل کرلیا جائے گا۔

یہ سراسر ناانصافی ہوگی اگر ایک طرف بینظیر کے ساتھ صلح کرلی جائے اور دوسری طرف نواز شریف کو گھاس تک نہ ڈالی جائے۔ نواز شریف کے بغیر اگلے انتخابات صاف شفاف ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ ایک بہت بڑی سیاسی قوت کو اس سارے کھیل سے باہر رکھ کر جانبداری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔

موجودہ سیاست صرف اور صرف ذاتی مفادات کا کھیل بن کر رہ گئ ہے۔ عوام کیا سوچتے ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ سب کھلاڑیوں کو معلوم ہے کہ عوام میں ابھی وہ دم نہیں ہے کہ وہ ذاتی مفادات حاصل کرنے والوں کیخلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کسی بھی سیاسی پارٹی نے اپنے منشور کا اعلان نہیں کیا۔ ہر سیاسی لیڈر اسی جوڑ توڑ میں لگا ہوا ہے کہ کیسے اگلی حکومت ميں شامل ہوا جائے۔ یہی سوچ ہماری ناکامی کی سب سےبڑی وجہ ہے۔ اس سوچ کو صرف عوام کی طاقت ہی بدل سکتی ہے۔ اب عوام اپنی سیاسی طاقت کا اندازہ کب لگاتے ہیں اور کب اس طاقت کو استعمال کرتے ہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا۔

کیا ایسا ممکن ہو گا کہ عوام ان سب آزمائے ہوئے بدکردار سیاستدانوں کو مسترد کرکے کسی نئی قیادت کو آگے لاسکیں؟ کیا عوام اس دفعہ ذات برادری سے اوپر اٹھ کر نیک اور محب وطن سیاستدانوں کو اسمبلیوں میں بھییجنے کی کوشش کریں گے؟ کیا کسی انسان یا گروپ کے پاس ایسا منشور ہے جو عوام کی محرومیوں سے فائدہ اٹھا کر ان کی سوئی ہوئی طاقت کو جگا سکے اور بیرونی آشیربار کی بجائے عوامی طاقت کے بل بوتے پر حکومت حاصل کرسکے؟

 اس طرح کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کیلیے صرف معجزے پر ہی اکتفا کیا جاسکتا ہے کیونکہ زمینی حالات ابھی اس کی اجازت دیتے نظر نہیں آتے۔