پاکستان کو آزاد ہوئے انہتر سال ہو گئے ہیں مگر ابھی تک کوئی بھی ایسا سال نہیں دیکھا جس میں پاکستان نے ترقی کی ہو۔ نواز شریف برادران کی موجودہ اور زرداری کی سابقہ حکومتوں کو ہی لے ہیں مجال ہے کسی نے بڑی فیکٹری لگانے کی کوشش بھی کی ہو۔ زرداری نے تو ملک کیلیے کیا بھی کچھ نہیں اور بیرونی قرضوں کے ڈھیر لگا دیے۔ یہی حال میاں برادران کی حکومت کا ہے۔ وہ کام کئے جا رہے ہیں جن میں کمیشن بہت زیادہ ہے۔ صنعتکاری کیلیے بجلی گیس بہت ضروری ہوتی ہے مگر دونوں چیزوں کی لوڈشیڈنگ کوئی حکومت ابھی تک کم نہیں کر سکی۔ اورنج ٹرین اور بسیں چلانے کی بجائے اچھا ہوتا اگر ملک میں صنعتکاری کو فروغ دیا جاتا۔
چودہ اگست کو جوش و خروش سے منانے کا آغاز ایک ڈکٹیٹر جنرل ضیاع نے کیا تھا۔ میڈیا کی وجہ سے پچھلے چند سالوں سے یومِ آزادی جوش و خروش سے منانے کا رواج عام ہو چکا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس روز کم از کم پاکستانی ایک دوسرے کیساتھ ایمانداری سے پیش آتے۔
کاروبار ایمانداری سے کرتے۔
پولیس اور جج صاحبان کچھ ایسا کر کے دکھاتے کہ لوگوں کو محسوس ہوتا کہ وہ آزاد ہیں۔
مگر ایسا ہو نہیں سکا۔
پہلے انگریز ہم پر براہِ راست حکومت کرتے تھے اب وہ مقامی سیاستدانوں کی شکل میں ہم پر مسلط ہیں۔
انہوں نے پاکستان کو قرضوں میں ایسا جکڑا ہے کہ اب ہمارا بجٹ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک بناتے ہیں۔ ہمارے بجٹ کا بہت بڑا حصہ سود کی شکل میں بیرونِ ملک منتقل ہو جاتا ہے۔
رہی سہی کسر فوج کا حصہ نکال دیتا ہے اور طاقتور فوج اتنی کہ وہ اپنے بجٹ کا آڈٹ بھی نہیں ہونے دیتی۔
اگر آزادی کے دریا کو کوزے میں بند کیا جائے تو ہمارے ملک میں فوج، حکمران اور بیروکریسی آزادی کے مزے لوٹ رہے ہیں وہ بھی عام پبلک کو غلام بنا کر۔
ابھی ہم آزاد نہیں ہیں
ابھی ہم شاد نہیں ہیں
ابھی ہم نے ووٹ کی طاقت استعمال کی نہیں ہے
ابھی ہم نے جمہوری آزادی بحال کی نہیں ہے
ابھی ہم نے ڈھنگ سیکھا نہیں ہے احستاب کرنے کا
سوچا نہیں ہے حکمرانوں کیساتھ اپنا حساب کرنے کا
ابھی ہم آزاد نہیں ہیں