بنو امیہ کی حکومت چار سو ہجری کے شروع میں کس طرح ختم ہوئی یہ مندرجہ ذیل اقتباسات سے اندازہ لگایے اور سوچیے کیا موجودہ دور کے مسلمان حکمران اب بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں یا پھر ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل چکے ہیں۔ کیا اب بھی مسلمان حکمران غیروں کے ہاتھوں میں کھلونا نہیں بنے ہوئے؟ کیا اب بھی دشمان اسلام مسلمانوں کی ریشہ دوانیوں سے فائدہ اٹھا کر ان کے تیل کے ذخائر پر قابض نہیں ہوچکے؟ کیا اب بھی مسلمان غیروں کی مدد سے لیس ہوکر ایک دوسرے کا گلا نہیں کاٹ رہے؟ کیا تب سے ہم مختلف ملکوں میں بٹ کر اپنی اپنی حکمرانی کی خواہشات پوری نہیں کررہے؟

“سلیمان مستعین نے جب دیکھا کہ اس شہر کا فتح ہونا دشوار ہے اور فوج کے لیے سامان حسب ضرورت فراہم نہیں کرسکتا تو اس نے ابن اوفونش یعنی عیسائی بادشاہ کے پاس سفیر بھیج کر درخواست کی کہ تم ہماری مدد کرو اور حسب ضرورت سامان رسد اور فوج بھیجو تاکہ ہم قرطبہ پر حملہ آور ہو کر تخت خلافت حاصل کرلیں۔ اس پیام سلام کی خبر قرطبہ میں مہدی کے پاس پہنچی تو اس نے بھی عیسائی بادشاہ کے پاس پیغام بھیجا اور اپنی طرف مائل کرنے کے لیے وعدہ کیا کہ ہم تمام سرحدی قلعے اور شہر تمہارے سپرد کریں گے۔ دونوں کے پیغامات سن کر عیسائی بادشاہ نے مستعین کی امداد کرنی مناسب سمجھی اور ایک ہزار بیل، پندرہ بکرے اور ضروری سامان مستعین کے پاس بھیج دیا۔ اس کے بعد فوج بھی امداد کے لیے روانہ کی۔ سخت خون ریزی کے بعد مہدی کو شکست ہوئی بیس ہزار اہل قرطبہ میدان سراوق میں مقتول ہوئے۔ یہ فتح چونکہ عیسائیوں کی مدد سے مستعین کو حاصل ہوئی تھی لہذا عیسائیوں کی خوب خاطر مدارات ہوئی اور قرطبہ کے علما فضلا کا بہت بڑا حصہ ان عیسائی وحشیوں کے ہاتھوں شہید ہوا۔ خلیفہ مہدی نے طلیطلہ میں پہنچ کر عیسائی بادشاہ اوفونش سے پھر خط و کتابت کی اور اس کو اپنی مدد پر آمادہ کیا۔ عیسائی بادشاہ اس موقع کی اہمیت کو خوب پہچانتا تھا اور وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس وقت مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر کمزور کردینے کا نہایت ہی اچھا موقع حاصل ہے۔ چنانچہ اس نے مہدی سے فوراٌ عہدنامہ لکھا کر جس قدر فوج اس کی مدد کو بھیج سکتا تھا بھیج دی اور اس بات کی مطلق پرواہ نہیں کی کہ جو فوج مستعین کے ہمراہ گئ تھی وہ ابھی تک واپس نہیں آئی ہے۔

 مہدی عیسائیوں کی امداد لے کر قرطبہ پر حملہ آور ہوا۔ مقام عقبۃالبقر میں نہایت خون ریزجنگ کے بعد مستعین کو شکست حاصل ہوئی اور مہدی دوبارہ فاتحانہ قرطبہ میں داخل ہو کر تخت خلافت پر متمکن ہوا۔ عیسائیوں کی وہ فوج جو مستعین کے ساتھ تھی مہدی کے لشکر میں شامل ہوگئی اور اس لڑائی میں بھی زیادہ تر مسلمان اور اہل قرطبہ ہی مارے گئے۔ مہدی قرطبہ میں داخل ہوتے ہی عیش و عشرت میں مصروف ہوگیا، اس طرح تمام ملک اندلس جو امن و امان کا گہوارہ تھا بدامنی کا گھر بن گیا اور ہر ایک وضیع و شریف کو اپنی جان و مال کا بچانا دشوار ہوگیا۔

واضح عامری مہدی کے ساتھ تھا اس نےجب ملک کو اس طرح تباہ اور حکومت اسلامیہ کوبربار ہوتے دیکھا تو شہر قرطبہ کے بااثر لوگوں سے مشورہ کر کے مہدی کے معزول اور خلیفہ ہشام ثانی کے دوبارہ تخت نشین کرنے کی تیاری کی۔ چنانچہ چار سو ہجری کو ہشام دوبارہ قیدخانہ سے نکال کر تخت خلافت پر بٹھایاگیا اور مہدی کو سردربار ہشام کے روبرو غیرنامی غلام نے قتل کیا۔

 واضح نے مہدی کا سر مستعین کے پاس بھیج کر اسے خلیفہ ہشام کی اطاعت کا حکم دیا۔ چونکہ مستعین کیساتھ اس غارت گری میں ابن اوفونش عیسائی بادشاہ بھی شریک ہو گیا تھا لہٰذا واضح عامری کے اس پیغام کو حقارت سے ٹھکرا دیا گیا اور ابن اوفونش اور مستعین نے مل کر قرطبہ کے ارد گرد کا تمام علاقہ برباد کرکے قرطبہ کا محاصرہ کرلیا۔

آخر طویل محاصرے سے تنگ آکر عیسائی بادشاہ کو مستعین کی ہمراہی سے جدا کرنے کیلیے ہشام کی طرف سے سلام و پیام کا سلسلہ جاری ہوا اور عیسائی بادشاہ کی خواہش کے موافق ہشام نے دوسوقلعے مع چند بڑے بڑے شہروں کے جو شمال کی جانب اب اوفونش کی ریاست کے متصل تھے اس کو دیدیے اور اس طرح ابوفونش نے مستعین کا ساتھ چھوڑ دیا۔ مستعین اور اس کے ہمراہی بربری مصروف محاصرہ رہے مگر چونکہ محاصرہ کمزور ہوگیا تھا لہٰذا اب مقابلہ اور معرکہ کی یہ صورت ہوگئی کہ کبھی شہر والے بربریوں کو مارتے ہوئی دور تک پیچھے ہٹا دیتے اور کبھی بربری شہروالوںکو شکست دے کر شہر کے اندر گھس جاتے۔ یہ حالت بہت دنوں تک جاری رہی۔ اس عرصہ میں کئی عیسائی حکمرانوں نے اپنی بغاوت اور مستعین کی مدد کرنے کا دباؤ ڈال کر دربار قرطبہ سے ابن اوفونش کی طرح سرحدی صوبوں کی سندیں حاصل کیں اور بہت سا ملک عیسائیوں کے قبضے میں چلا گیا۔

آخر تین شوال چار سو تین ہجری میں مستعین نے بزور تیغ قرطبہ پر قبضہ حاصل کیا، ہشام ثانی یا تو اس ہنگامہ میں قتل ہوگیا یا کہیں اس طرح غائب ہوا کہ پھر اس کا پتہ نہ چلا۔ واضح عامری اس سے چند روز پہلے قتل ہوچکا تھا مستعین نے قرطبہ میں داخل ہوکر تخت خلافت پر جلوس کیا۔

سلیمان بن حکم مستعین باللہ اب مستقل طور پر قرطبہ کا خلیفہ بن گیا مگر جابجا صوبوں کے حاکم خود مختار بادشاہ بن بیٹھے۔ ابن عباد نے اشبیلہ میں، ابن اقطس نے بطلیوس میں، اب ابی عامر نے بلنسیہ و مرسیہ میں، ابن ہود نے سرقسطہ میں اور مجاہد عامری نے رانیہ اور جزائر میں خود مختارانہ حکومتیں شروع کردیں۔ شمالی عیسائی سلاطین نے اس مناسب موقع اور موزوں وقت سے فائدہ اٹھانے میں کمی نہیں کی اور ہرعیسائی ریاست نے اپنی حددود کو وسیع کرکےاپنے قریبی علاقوں کو اپنی حکومت میں شامل کرلیا۔ غرض اندلس میں طوائف الملوکی کا زمانہ شروع ہوگیا اور حکومت اسلامیہ پارہ پارہ ہوکر بے حد کمزور وناتواں ہوگئی۔

محرم چار سو سات ہجری تک مستعین نے قرطبہ اور اس کے مضافات پر حکومت کی اور تین سال چند ماہ برائے نام خلافت کے بعد اشبیلیہ کے متصل مقام طالقہ کےمیدان میں علی بن حمود سے شکست کھا کر گرفتارومقتول ہوا اور اس طرح بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔”