حکومت کب سے شور مچا رہي ہے کہ پاکستان نے ورلڈ بنک اور آئي ايم ايف سے قرض لينا بند کرديا ہے۔ مگر آج کي ايک خبر نے اس جھوٹ کا بھي بھانڈا پھوڑ ديا ہے۔ خبر يہ ہے کہ ورلڈ بنک پاکستان کو بجلي کے نۓ پروجيکٹس کيلۓ قرض دے رہا ہے مگر شرط يہ ہے کہ بجلي کے نرخ اسي ماہ بڑھاۓ جائيں۔ حکومت نے ورلڈ بنک کي بات مان لي ہے مگر کہا ہے کہ ماہِ رمضان کي وجہ سے بجلي کے نرخ اس ماہ کي بجاۓ اگلے ماہ بڑھاۓ جائيں گے تاکہ قوم پٹرول کي قيمتوں کے بعد بجلي کي قيمتوں ميں اضافے سےزيادہ گھبرا نہ جاۓ۔
اب کوئي بتاۓ کہ اگر يہ صورتحال ہے تو پھر ہم ورلڈ بنک يا آئي ايم ايف سے کيسے آزاد ہوۓ ہيں۔ ہماري اطلاع کے مطابق تو ملک کي بہت ساري سرکاري صنعتيں نجي اداروں کو بيچ کر ملکي قرض چکانے کے باوجود ہمارے قرض ميں اضافہ ہي ہوا ہے۔ اب پتہ نہيں قومي اداروں کے بيچنے سے جو زر اکٹھا ہوا وہ کس کي جيب ميں گيا۔
مہنگائي ميں کرتے جايۓ اضافہ جب تک قوم بلبلا نہ اٹھے۔ اگلے ماہ بجلي مہنگي کيجۓ اور اس کے بعد سوئي گيس کي باري ہو گي۔ مگر ياد رکھيۓ اگر سب کچھ مہنگا کرکے بھي آپ کا پيٹ نہ بھرا تو پھر آپ کيا کريں گے۔ کيا آپ کے پاس مہنگائي بڑھانے اور دہشت گردي ختم کرنے کے علاوہ بھي کوئي کام ہے۔ خدا کيلۓ ہوش کے ناخن ليجيۓ اور غريب عوام کے بھلے کا بھي سوچۓ۔
اس دن ملک کي قسمت بدلے گي جب ملک کي قيادت خواص کي بجاۓ عام لوگوں کے پاس ہو گي جو بس پر بيٹھ کر دفتر جايا کريں گے لائين ميں لگ کر بل ادا کياکريں گےعام سے گھروں ميں رہائيش رکھيں گے اور جن کو موت کا ڈر نہيں ہوگا۔ وہ قوم کے اصل خادم ہوں گے جو سرِ بازار بے خوف پھریں گے جن کي حفاظت پر کوئي باڈي گارڈز نہيں ہوں گے اور جن تک عام آدمي کي رسائي ہو گي۔
جب تک جاگير دار ، سرمائيہ دار اور آرمي آفيسر حکومت ميں رہيں گے ہميں اسي طرح مہنگائي کے تحفے ملتے رہيں گے کيونکہ ان لوگوں کو دال روٹي کے بھاؤ کا کيا پتہ۔ يہ لوگ محلوں ميں رہنے والے غريب کا حال کيا جانيں۔