son of a bitch کا لفظ انگریز لوگ بیہودہ زبان کے طور پر استعمال کرتےہیں اور اس کے خلاف استعمال کرتے ہیں جو انتہائی کمینی حرکت کرے۔  اس کا ترجمہ “کتی کا بچہ” ہے اور پنجابی زبان میں لوگ اسے “کتے دا پتر” کہتےہیں۔ یہ گالی پنجابی اپنے روزمرہ کے معاملات میں کثرت سے استعمال کرتے  ہیں۔

ڈیلی ٹیلیگراف نے ایک آرٹیکل چھاپا جس میں یہ گالی جنرل مشرف کو دی گئی اور اسی وجہ سے جنرل مشرف نے ڈیلی ٹیلگراف کے تینوں نامہ نگار ملک بدر کردیے۔ اپنی کل کی پریس کانفرنس میں جنرل مشرف نے ڈیلی ٹیلیگراف اور اس کے نمائندوں سے معافی مانگنے کو کہا ہے۔

ہم خود جنرل مشرف کی مطلق العنانی کو پسند نہیں کرتے مگر آج تک ہم نے جنرل مشرف کیخلاف بیہودہ اور حد سے گری ہوئی زبان استعمال کرنے کا سوچا تک نہیں۔ اس کے علاوہ کسی پاکستانی اخبار اور نیوز چینل نے بھی کبھی ایسی زبان استعمال نہیں کی۔ ہم ڈیلی ٹیلیگراف اخبار کی مزمت کرتے ہیں جس نے اپنے اخبار میں اپنے دوست ملک کے سربراہ کو گالی دی۔ ہم اس کے نامہ نگاروں کی بھی مزمت کرتے ہیں جنہوں نے اس آرٹیکل کو لکھا اور اپنے اخبار کو چھپنے کیلیے بھیجا۔

اگر پاکستان میں کسی نے اس طرح کی زبان جنرل مشرف کيخلاف استعمال کی ہوتی تو وہ راتوں رات غائب کردیا جاتا اور اس کی خبر تک نہ ملتی۔ ہمارے ہاں تو جائز تنقید کرنے والے ڈر ڈر کر زندگی گزار رہے ہیں اور اس طرح کی زبان استعمال کرنے کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔

دراصل قصور ہمارا بھی ہے جو اس حد تک اپنے غیرملکی آقاؤں کے آگے جھک گئے ہوئے ہیں کہ ہمارے آقا ہمیں غلام سے زیادہ اب اہمیت ہی نہیں دیتے۔ وہ ہمارے ساتھ وہی سلوک کررہے ہیں جو پاکستان میں ایک سرکاری اہلکار چپڑاسی کیساتھ، ایک فوجی آفیسر اپنے اردلی یا سولین کیساتھ، ایک وفاقی وزیر ایک بیرے کیساتھ، ایک کارخانہ دار اپنے مزدور کیساتھ کرتا ہے۔ ہم اپنے معاشرے میں “کتے دا پتر” کہنے والے کو لعنت ملامت نہیں کرتے لیکن جب ہمارے آقا ہمیں” سن آف اے بچ” کہتے ہیں تو ہم سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ کاش جنرل صاحب اس معاشرتی رویے کو بدلنے میں مدد دیں۔ جس طرح انہیں اس رویے سے تکلیف پہنچی ہے اسی طرح روزانہ غریبوں کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ غریب بے بسی کی وجہ سے کسی کو شکایت بھی نہیں کرسکتے۔

اگر غلام نے آقا کو اس طرح کی گالی دی ہوتی تو آقا غلام سے قطع تعلق کرلیتا یعنی تب تک سفارتی تعلقات منقطع کیے رکھتا جب تک معافی نہ مانگ لی جاتی۔ ہم چونکہ غلام ہیں ہمارا کوئی حق نہیں بنتا کہ ہم اپنے آقاؤں سے سفارتی تعلقات منقطع کریں اسلیے ہم نامہ نگاروں کی ملک بدری کیساتھ ساتھ صرف معافی مانگنے کی درخواست ہی کرسکتے ہیں۔

پتہ نہیں وہ وقت کب آئے گا جب ہمارے خلاف یورپی میڈیا اس طرح کی گالیاں لکھنے سےپہلے سو بار سوچا کرے گا؟