کل جو اسمبلی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اپنی قدرتی مدت کرکے تحلیل ہوئی اس کی کارکردگی ہماری نظر میں صفر رہی۔ اسمبلی نے پانچ سال پورے تو کئے مگر جمہوری نظام کی بجائے ڈکٹیٹرشپ کے دور میں۔

اس اسمبلی نے کچھ ریکارڈ قائم کئے جن کی مثال پاکستان کے جمہوری نظام میں نہیں ملتی۔

یہ اسمبلی پاکستان کی پہلی گریجویٹ اسمبلی تھی جسے کبھی مچھلی بازار سے تعبیر کیا گیا اور کبھی غیرمہذب ہونے کا طعنہ سننا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر پاکستان اس اسمبلی سے ایک بار بھی خطاب نہ کرسکے۔ اسمبلی کے ممبران پر گریجویٹ ہونے کی شرط بھی ایک سازش کا حصہ تھی جس کی وجہ سے بہت سے معروف سیاستدان ممبر منتخب نہ ہوسکے۔

اس اسمبلی کو ہمیشہ ربر سٹیمپ اسمبلی کہا گیا کیونکہ اس کے پاس صرف وہ اختیارات تھے جنہیں استعمال کرکے یا وہ اپنے مفادات کا خیال رکھے یا آمریت کا۔ یہی وجہ ہے کہ اس اسمبلی نے اپنی تنخواہوں میں اضافے کے بل تو پاس کیے مگر عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کیلیے قانون سازی نہیں کی۔ حقوق نسواں کا بل بھی اگر پاس ہوا تو عورتوں کی سہولت کیلیے نہیں بلکہ اپنے غیرملکی آقاؤں کی خوشنودی اور روشن خیالی کیلیے۔ اس اسمبلی نے جو پچاس بل پاس کیے اس میں سے انچاس حکومتی بینچوں نے پیش کیے۔ اس طرح ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آمریت نے کتنی من مانی کی۔

اس اسمبلی کے پانچ سالوں میں کورم ٹوٹنے کا بھی ریکارڈ قائم ہوا۔ جس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عوامی نمائندے عوام کے مسائل حل کرنے کیلیے کتنے مخلص تھے۔

اس اسمبلی نے ایمرجنسی کے نفاذ کی توثیق کی ، ایک غیر جمہوری صدر کو منتخب کیا اور ہاؤس لیڈر ایک سیاستدان کی بجائے ٹیکنوکریٹ چنا۔ یہ ٹیکنوکریٹ پہلے ہاؤس لیڈر نامزد ہوئے اور بعد میں اسمبلی کے ممبر بنے۔۔

اس اسمبلی نے ایک شرمناک سترہویں ترمیم پاس کی جس کی وجہ سے پاکستان کا نظام پارلیمانی کہلانے کے باوجود صدارتی بن گیا اور اس طرح ایک آمر کے تمام آرڈرز قانون کا حصہ بن گئے۔

اس اسمبلی کی حزب اختلاف کے قائد نے پہلی بار حکومت کی بی ٹیم کا کردار ادا کیا اور ایک غیر جمہوری اور فوجی کو ملک کا صدر منتخب کرنے میں مدد کی جس کے بدلے میں ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک صوبے میں حزب اختلاف اور حکومت نے ملکر حکومت کی۔

اس اسمبلی میں خواتین کی ریکارڈ تعدار پہنچی مگر منتخب ہو کر نہیں بلکہ نامزد ہو کر، جس کا فائدہ صرف اور صرف حکومت کو ہوا جس نے نامزدگی سے پارلیمان میں اکثریت حاصل کرلی۔ بے بسی کی انتہا دیکھیے کہ عورتوں کی اتنی بڑی تعدار بھی اپنے حقوق کی جنگ نہ جیت سکی اور عورتوں کے مسائل ویسے کے ویسے ہی رہے۔

ہماری نظر میں اس اسمبلی نے تو جمہوری نظام کی پختگی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی ملک کی ترقی کا سبب بنی۔ اگر اس نے بل پاس بھی کیے تو غیرملکی آقاؤں کو نوازنے کیلیے ناں کہ غریبوں کی حالت سدھارنے کیلیے۔ یہ اسمبلی صرف اور صرف ایک شو پیس تھی اور ایک ایسا گھوڑا تھی جس کی لگام ایک آمر کے ہاتھ میں تھی۔ اس اسمبلی کے ارکان نے اہنا زیادہ وقت اسی آمر کے دفاع میں صرف کیا۔

ان پانچ سالوں میں اسمبلی میں پاس ہونے بلوں سے زیادہ صدر مملکت نے آرڈینینس جاری کیے جو اسمبلی میں پیش ہوئے بغیر قانون کا حصہ بن گئے۔

 ایسی اسمبلی اپنی پانچ سالہ مدت اگر پوری نہ کرتی تو یہ بہتر ریکارڈ ہوتا۔