اسی ہفتے گورنر پنجاب خالد مقبول جو خود ریٹائرڈ جنرل ہیں سے بی بی سی کے نامہ نگار نے فوج کی غیرمقبولیت پر بات کی ۔ انہوں نے جنرل صاحب سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ “اے وطن کے سجیلے جوانو” لکھنے والا شاعر اب “چاچا وردی لاندا کیوں نئیں” لکھنے پر مجبور ہوچکا ہے؟ جنرل صاحب نے اقرار کیا کہ فوج کی قدر عوام کے دلوں میں کم ہوئی ہے مگر انہوں نے امید ظاہر کی کہ شمالی علاقوں اور سوات میں شدت پسندوں پر کنٹرول اور جمہوریت کی بحالی کے بعد فوج کی عزت دوبارہ بحال ہوجائے گی۔

فی الحال تو اب یہ وقت آچکا ہے کہ لوگ پاک فوج کی پاک وردی کو بھی مظاہروں میں جلانے سے دریغ نہیں کررہے اور جگہ جگہ پر لوگ اسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں حالات کی خرابی کی جڑ صرف فوج ہے جس کی سربراہی جنرل مشرف کررہے ہیں۔  وہ کس کے ماتحت کام کررہے ہیں اس کے بارے میں بھی لوگ چہ میگوئیاں کررہے ہیں مگر لوگوں میں اتنی سکت نہیں کہ وہ کھل کر اظہار خیال کرسکیں۔

سننےمیں یہی آیا ہے کہ فوج اندر اندر ہی عوام میں اپنی غیرمقبولیت سے پریشان ہے اور اس کے ازالے کیلیے کوئی حل سوچ رہی ہے اب وہ حل کیا ہے اور کب منظرعام پر آتا ہے اس کیلیے انتظار کرنا پڑے گا۔

بی بی سی کے بقول جس طرح فوج نے پاکستان کی معاشیات پر قبضہ کرلیا ہے اور جس طرح ہر محکمے میں فوج گھس گئی ہے اس نے کاروباری لوگوں اور بیوروکریسی کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کس طرح فوج سے جان چھڑائی جائے۔ فی الحال تو دور دور تک اس بات کا امکان نظر نہیں آتا کہ فوج اب پاکستان کی سیاست اور حکومت سے باہر جائے مگر کل کیا ہو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

فی الحال آپ بی بی سی سے کاپی کی گئی ان دو تصویروں کو غور سے دیکھیے اور ان کا آپس میں کیا لنک ہے اس پر غور کیجیے۔

دو مہرے جنرل مشرف اور شوکت عزیز وردی کیوں جلائی جارہی ہے؟