امریکہ کے کہنے پر امریکی شہر اناپولس میں مڈل ایسٹ کانفرنس آج منعقد ہو رہی ہے جس میں چالیس سے زائد ممالک اور مختلف تنظیمیں حصہ لے رہی ہیں اور ان میں پاکستان کے خارجہ سیکریٹری بھی شامل ہیں۔

عرب تجزیہ نگار اس کانفرنس سے کوئی زیادہ امیدیں نہیں رکھتے۔  بقول ان کے اس کانفرنس کا انعقاد ایک شو سے زیادہ کچھ نہیں اور اگر اسرائیل اور امریکہ فلسطینی مسئلے کے حل میں اتنے ہی سنجیدہ ہیں تو پھر صرف تین پارٹیوں یعنی اسرائیل، فلسطین اور امریکہ کے علاوہ کسی اور کی شرکت کی ضرورت نہیں تھی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق بہت سارے عرب ممالک جانتے ہیں کہ یہ امن کانفرنس پہلے کی طرح بےسود ہی رہے گی مگر وہ صدر بش کی فون کال پر “نو” کہنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اسی لیے انہوں نے کانفرنس میں شرکت کی حامی بھر لی۔

اب یہ کانفرنس ہوگی، لمبی چوڑی تقریریں ہوں گی اور پھر بعد میں ایک جنرل سی قرارداد پاس ہوگی جس میں اسرائیل اور فلسطین مزاکرات جاری رکھنے کی حامی بھریں گے اور بس۔

اگر امریکہ یا اسرائیل فلسطینیوں کو آزادی دینے کے حق میں ہیں تو پھر پتہ نہیں کونسی رکاوٹ ایسی ہے جو ان سے عبور نہیں ہو پا رہی۔ اس وقت امریکہ کی سو سے زیادہ ممالک میں افواج تعینات ہیں اور حیرانی اسی بات پر ہے کہ سپرپاور ہونے کے باوجود وہ دنیا کی دو چھوٹی سی ریاستوں کو صلح پر مجبور نہیں کرسکتا۔ امریکہ آج اگر اسرائیل کی امداد بند کرنے کی دھمکی دے ڈالے تو اسرائیل کا وجود خطرے ميں پڑ جائے گا اور وہ فلسطین کو آزاد کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں اسرائیلی لابی امریکہ میں مضبوط ہے اور یہودی امریکی معیشت پر بھی چھائے ہوئے ہیں مگر امریکہ جیسی سپرپاور کو اب کسی بھی دھمکی سے ڈرانا آسان نہیں ہے۔ اگر یہودی امریکہ سے دولت نکالنے کی دھمکی دیں گے تو امریکہ ان کساتھ وہی سلوک کرسکتا ہے جو ہٹلر نے کیا تھا۔ عرب ممالک تو امریکہ کی بات ٹال ہی نہیں سکتے کیونکہ عربی حکمرانوں کی ساری کی ساری دولت امریکی بینکوں میں پڑی ہے اور وہ انکار کرکے کنگلے نہیں ہونا چاہتے۔

 بات سیدھی سی ہے کہ ابھی ہم اس مسئلے کو حل کرنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ اس مسئلے کے حل ہونے سے دنیا کی دوبڑی طاقتوں کے درمیان صلح ہوجائے گی جو دنیا کے بڑے بڑے اسلحہ ساز ملکوں کو منظور نہیں ہے۔ ہم نے یہودیوں اور مسلمانوں کو دوبڑی طاقتیں اس لیے کہا ہے کہ یہودی اس وقت مالی لحاظ سے سپر پاور ہیں اور مسلمان عددی لحاظ سے۔

فلسطینی ریاست کے قیام میں دو تین بڑے بڑے ایشو حائل ہیں۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ فلسطین کے علاوہ تمام عرب ممالک اسے تسلیم کرلیں۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ فلسطینی ریاست میں یروشلم کا وہ حصہ شامل کیا جائے جس میں بیت المقدس ہے، فلسطینی مہاجرین کو واپس فلسطین آنے کی اجازت دی جائے اور مغربی کنارے سے یہودی بستیاں ہٹا دی جائیں۔ اسرائیل پتہ نہیں کیوں ان تین جائز مطالبات کو ماننے کیلیے تیار نہیں ہے۔ حالانکہ فلسطین اس کے بدلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلیے بھی تیار ہے۔ اسی طرح عرب ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلیے تیار ہیں اگر اسرائیل 1967 سے پہلے کی پوزیشنوں پر واپس چلا جائے اور فلسطینیوں کو آزاد کردے۔ اب کوئی عقل کا اندھا ہی ان جائز مطالبات کو ناجائز قرار دے گا۔ دراصل اسرائیل چاہتا ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کیساتھ نہ صرف سفارتی تعلقات قائم کریں بلکہ اس کیساتھ تجارت بھی کریں۔ اب اسرائیل کو کون سمجھائے کہ یہ سب کچھ ہوجائے گا جب فلسطینی آزاد ہوں گے اور عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔

دراصل ہماری نظر میں آزاد فلسطین اسرائیلیوں کے حق میں بھی ہے کیونکہ اس طرح اس کو عرب ممالک کی پسماندہ ٹیکنالوجی والی منڈی تک رسائی حاصل ہوجائے گی اور وہ ان ممالک کو اپنی مصنوعات برآمد کرکے اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک میں شامل کرلے گا۔ اسرائیلی بھی شاید یہ بات جانتے ہیں مگر کوئی ایسا خفیہ ہاتھ ایسا ہے جو اسرائیل کو ان جائز مطالبات کو ماننے سے روک رہا ہے۔

پاکستان نہ جانے کیوں اس کانفرنس میں شرکت کررہا ہے۔  نہ تو پاکستان کی وہاں کوئی بات سنے گا اور نہ کوئی مرعوب ہوگا۔ پاکستان کی شرکت صرف اور صرف اسرائیل کیساتھ ملاقات کا بہانہ ہے اور کچھ نہیں۔

خدا کرے ہمارے سمیت عرب تجزیہ نگاروں کے خدشات اس دفعہ غلط ثابت ہوں اور فلسطینی ریاست کے قیام پر اسرائیل نہ صرف راضی ہو جائے بلکہ فلسطینی ریاست کی آزادی کی تاریخ بھی مقرر کردے۔ وہ شام کے مقبوضہ علاقے خالی کرکے اس کے ساتھ بھی مصر کی طرح کا امن معاہدہ کرلے تاکہ دنیا چین کی نیند سوسکے۔ اسی میں اسرائیل کی بھلائی ہے مگر عالمی طاقتوں کی نہیں جنہوں نے اپنا اسلحہ ابھی مزید بیچنا ہے۔