پاکستان میں نو برس کے بعد 28 نومبر 2007 کو آرمی چیف کے عہدے پر نئے فوجی سربراہ کی تقرری عمل میں لائی گئی اور جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پاکجنرل اشفاق پرویز کیانی فوج کے چودہویں آرمی چیف کی حیثیت سے اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔

پاکستان میں آرمی چیف کا عہدہ ہمیشہ سے پرکشش اور انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ آرمی چیف کی پاکستانی سیاست میں براہ راست شرکت اس وقت شروع ہوئی تھی جب جنرل ایوب خان کو سویلین حکومت میں باوردی وزیر دفاع بنایا گیا جس کے بعد ملک میں براہ راست اور بالواسطہ ملکی سیاست اور حکومتوں کی تشکیل و تحلیل کے معاملات آرمی چیف کی نگرانی میں ہوتے رہے ہیں۔

جنرل ضیاء الحق

آٹھویں فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق چودہ برس کی طویل مدت تک آرمی چیف رہے

آرمی چیف کی تقرری کا اختیار سنہ تہتر کے آئین میں متعدد مرتبہ ترمیم کر کے کبھی وزیراعظم سے صدر مملکت اور کبھی صدر مملکت سے وزیر اعظم کے پاس چلا گیا۔

انیس سو تہتر کے آئین میں ملک میں آرمی چیف مقرر کرنے کا اختیار وزیر اعظم کے پاس تھا اور وزیراعظم کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے صدر مملکت آرمی چیف کا تقرر کرتے تھے لیکن جنرل ضیاء الحق کی آٹھویں ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار ختم کر کے صدر مملکت کو دے دیا۔

انیس سو ستانوے میں نواز شریف نے آئین میں چودہویں ترمیم کی جس کے تحت یہ اختیار دوبارہ وزیراعظم کو مل گیا اور نواز شریف نے اسی ترمیم کی بنیاد پر جنرل مشرف کو آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ بعد میں اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو جنر ل مشرف کو برطرف کرنے اور ان کی جگہ نئے آرمی چیف مقرر کرنے کا فرمان جاری کیا تاہم یہ الگ بات ہے اس سرکاری فرمان پر عمل نہ ہوسکا۔

صدر جنرل پرویز مشرف نے سترہویں ترمیم کے ذریعے اسمبلی کی تحلیل کے علاوہ آرمی چیف کی تقرری کا اختیار بھی صدر مملکت کو دوبارہ دے دیا اور جنرل اشفاق کیانی کی تقرری اس ترمیم کی بنیاد پر صدر جنرل مشرف نے خود کی ہے۔

ساٹھ برسوں میں آرمی کے تیرہ سربراہوں میں سے چار صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ان میں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف شامل ہیں۔

جنرل ایوب خان نے انیس باسٹھ میں ملک کو نیا آئین دیا جس میں پارلیمانی طرز حکومت کو تبدیل کر کے ملک میں صدارتی طرز حکومت متعارف کرایا گیا۔ باسٹھ کے آئین کی منسوخی کے بعد جنرل یحییٰ خان نے عبوری آئین دیا جبکہ جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف نے تہتر کے آئین میں ترامیم کے ذریعے تبدیلی کر کے بےاختیار صدر کو بااختیار صدر بنا دیا۔

قیامِ پاکستان کے تقریبا چار برس تک آرمی چیف کے عہدے پر غیر ملکی فوجی افسر تعینات رہے۔ ان میں سر فرینک والٹر میزوری انیس سو سینتالیس سے دس فروری انیس سو اڑتالیس تک جبکہ سر ڈگلس ڈیوڈ گریسی گیارہ فروری انیس سو اڑتالیس سے سولہ جنوری انیس سو اکاون تک آرمی چیف رہے۔

سولہ جنوری انیس سو اکاون کو جنرل ایوب خان پاکستان کے تیسرے آرمی چیف بنے۔ جنرل ایوب خان ملک کے پہلے مسلمان پاکستانی آرمی چیف تھے۔ جنرل ایوب خان کو سویلین حکومت میں باوردی وزیر دفاع بنایا گیا اور انہوں نے انیس اٹھاون میں آئین کو منسوخ کر کے اقتدار سنبھال لیا۔ ایوب خان نے آرمی چیف کا عہدہ چھبیس اکتوبر انیس سو اٹھاون کو چھوڑ دیا ۔

جنرل موسیٰ خان نے جنرل ایوب خان کے پیش رو کی حیثیت پاکستان کے چوتھے آرمی سربراہ مقرر ہوئے۔ جنرل موسیٰ خان ستائیس اکتوبر انیس سو اٹھاون سے سترہ جون انیس سو سڑسٹھ تک آرمی چیف کے عہدے پر فائز رہے۔

جنرل محمد یحییٰ خان پاکستان کے پانچویں آرمی چیف تھے جنہوں نے بری فوج کی قیادت سنھبالی۔ ایوب خان کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد انہوں نے ملک کی باگ ڈور بھی سنبھال لی۔ تاہم سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کو سقوط ڈھاکہ کے بعد جنرل یحییٰ خان بیس دسمبر انیس سو اکہتر کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ کر اقتدار سے الگ ہوگئے۔

پاک فوج کے چھٹے سربراہ جنرل گل حسن خان تھے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کے پہلے آرمی چیف تھے۔ جنرل گل حسن نے بیس دسمبر انیس سو اکہتر کو آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا۔ تاہم وہ اپنے عہدے کی میعاد پوری نہ کرسکے اور انہیں اس وقت کے صدر ذوالفقارعلی بھٹو نے تین مارچ انیس سو بہتر کو آرمی چیف کے عہدے سے ہٹا دیا۔

صدر ذوالفقارعلی بھٹو نے جنرل گل حسن کی جگہ جنرل ٹکا خان کو بری فوج کا سربراہ مقرر کیا۔ جنرل ٹکا خان نے تین مارچ انیس سو بہتر کو آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا اور اپنے عہدے کی قانونی میعاد مکمل ہونے پر تین مارچ انیس سو چھہتر کو ریٹائر ہوگئے۔

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آرمی چیف کے عہدے کی اہمیت کے پیش نظر ایک قابل اعتماد آرمی چیف کی تلاش کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف مقرر کیا اور ان کا چناؤ کرتے وقت متعدد سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کیا گیا۔

جنرل ضیاء الحق پاکستان کے آٹھویں فوجی سربراہ ہونے کے ساتھ ملک کے واحد جنرل ہیں جو گیارہ برس کی طویل مدت تک ملک کے آرمی چیف رہے۔ جنرل ضیاء الحق کا تقرر یکم مارچ انیس سو چھہتر کو عمل میں لایا گیا اور وہ اپنی موت تک آرمی چیف کے عہدے پر فائز رہے۔ سترہ اگست انیس سو اٹھاسی کو ان کے طیارے کے فضا میں پھٹنے اور اس کے نتیجے میں ان کی ہلاکت کے باعث آرمی چیف کا عہدہ خالی ہوا۔

جنرل ضیاءالحق نے اپنی تقرری کے ایک سال بعد پانچ مئی سنہ انیس ستتر کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور مارشل لاء لگا دیا۔ بعدازاں جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کی طرح جنرل ضیاء الحق بھی ملک کے صدر بن گئے۔

جنرل محمد ضیاء الحق کی ہلاکت کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ کو سینئر ترین جنرل ہونے کی بنا پر اس وقت کے قائم مقام صدر غلام اسحاق خان نے آرمی چیف مقرر کیا۔ اس طرح جنرل اسلم بیگ نے سترہ اگست انیس سو اٹھاسی کو آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا۔ جنرل اسلم بیگ تین برس کی میعاد مکمل ہونے پر سولہ اگست انیس سو اکانوے کو ریٹائر ہوگئے۔

صدر غلام اسحاق خان نے جنرل آصف نواز جنجوعہ کو سولہ اگست انیس سو اکانوے کو ملک کا آرمی چیف مقرر کیا لیکن وہ آٹھ جنوری انیس سو ترانوے کو وفات پاگئے اور اس طرح وہ اپنے عہدے کی میعاد مکمل نہ کرسکے۔

جنرل آصف نواز کے انتقال کی وجہ سے نئے آرمی چیف کے انتخاب کے حوالے سے صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان تناؤ رہا تاہم صدر مملکت نے اپنے صوابدیدی اختیار کے تحت وحید کاکڑ کو آرمی چیف مقرر کر دیا اور جنرل وحید کاکڑ نے آٹھ اپریل انیس سو ترانوے کو آرمی چیف کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔

جنرل وحید کاکڑ کے دور میں صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف میں شدید محاذ آرائی پیدا ہوئی اور اس کشیدگی کی وجہ سے غلام اسحاق خان اور نواز شریف دونوں کو اپنے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونا پڑا اور ان کی جگہ ایک عبوری سیٹ اپ آیا جس نے ملک میں عام انتخابات کرائے۔

جنرل عبدالوحید کاکڑ یکم دسمبر انیس سو چھیانوے کو گیارہویں آرمی چیف کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔

یکم دسمبر انیس سو چھیانوے کو جنرل جہانگیر کرامت نے پاک فوج کے سربراہ کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا۔ ان کا تقرر اس وقت کے صدر سردار فاروق احمد خان لغاری نے کیا۔ جنرل جہانگیر کرامت کے تقرر وقت ملک میں ملک معراج خالد نگران وزیراعظم تھے۔

تاہم نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں قومی معاملات کو چلانے کے لیے نیشنل سیکیورٹی کونسل کے قیام کی تجویز دینے کے پاداش میں ان کو اپنے عہدے کی میعاد مکمل ہونے سے قبل ہی عہدے سے مستعفیٰ ہونا پڑا۔ جنرل جہانگیر کرامت نے چھ اکتوبر انیس سو اٹھانوے کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس طرح وہ جنرل گل حسن اور جنرل آصف نواز کے بعد ملک کے تیسرے آرمی چیف تھے جو اپنے عہدے کی میعاد پوری نہ کرسکے۔

جنرل جہانگیر کرامت کے مستعفیٰ ہونے کے بعد نواز شریف نے آرمی چیف کے عہدے پر ایک بھروسے جنرل کے تقرر کے لیے دو سینئر ترین جرنیلوں کو نظرانداز کر کے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف مقرر کیا اور جنرل پرویز مشرف نے چھجنرل پرویز مشرف اکتوبر انیس سو اٹھانوے کو آرمی چیف کا عہدہ سنبھالا۔

صدر مملکت رفیق تارڑ نے وزیراعظم کی سفارش پر بارہ اکتوبر ننانوے کو جنرل پرویزمشرف کو اس وقت آرمی کے عہدے سے ہٹا دیا جب وہ سری لنکا کے دورے پر تھے اور ان کی جگہ ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف مقرر کیا لیکن آرمی نے جنرل پرویز مشرف کے برطرفی کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کو ختم کر کے اقتدار سنبھال لیا۔

جنرل مشرف پاکستان کے واحد جنرل ہیں جنہوں نے پہلے چیف ایگزیکٹو کا منصب سنبھالا اور بعد میں صدر رفیق تارڑ کی برطرفی اور اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ملک کے صدر بن گئے۔ جنرل ضیاءالحق کے بعد جنرل مشرف دوسرے آرمی چیف ہیں جوطویل عرصہ تک آرمی چیف رہے۔ ان کے عہدے کی میعاد نو برس اور ایک ماہ سے زائد مدت پر محیط ہے۔

جنرل مشرف جنرل ایوب خان کے بعد دوسرے آرمی چیف ہیں جو فوجی وردی اتار کر سویلین صدر بنے ہیں۔ ملک کے نئے فوجی سربراہ جنرل اشفاق کیانی اپنے نئے عہدے پر قانونی طور پر تین سال تک فائز رہیں گے اور نومبر سنہ دوہزار دس میں آرمی کے عہدے سے ریٹائر ہونگے۔