انتخابات کیلیے جب نگران حکومت منتخب کی جاتی ہے تو اس کا مقصد صرف اور صرف منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ مگر پاکستان میں نگران حکومتیں ایسے ایسے اقدامات کرتی رہی ہیں جن کا جمہوری حکومتوں کے ادوار میں منظور ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔

 نگران حکومت کا سب سے پہلے فائدہ ہمارے غیرملکی آقاؤں نے اس وقت اٹھایا جب بینکر معین قریشی کو درآمد کرکے وزیراعظم بنایا گیا۔ معین قریشي نے درآمدات پر ڈیوٹيوں میں کھل کر چھٹی دی اور نئے ٹیکس متعارف کرائے۔  بہت سے ایسے کنڑیکٹ غیرملکی کمپنیوں کو دیے جن کا فائدہ پاکستان کی بجائے غیرملکی آقاؤں کو پہنچا۔

پہلے تو موجودہ نگران حکومت کو ہم غیرجانبدار مانتے ہی نہیں کیونکہ اس کے ارکان کی اکثریت مسلم لیگ ق کے حمائتیوں پر مشتمل ہے۔ دوسرے اس نگران حکومت کے تین ماہ کے عارضی دور میں بھی غیرمعمولی اقدامات اٹھائے جانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔

ابھی اسی ہفتے نگران وزیراعظم نےنیلم  ہائیڈل پاور پروجیکٹ کی منظوری دی ہے جس پر 12.4 ارب ڈالر خرچ ہوں گے اب آپ حساب لگالیں کہ اس پروجیکٹ پر کمیشن کتنا بنا ہوگا اور دوسرے کنٹریکٹ بھی کسی چہیتی غیرملکی کمپنی کو دیا گیا ہوگا۔

اب سنا ہے صدرمشرف بھی کچھ آرڈیننس جاری کرنے والے ہیں۔ جن کی رو سے ایمرجنسی کے دوران کیے گئے اقدامات کو قانونی شکل دی جائے گی۔ ججوں کی تقرری کی عمر کا تعین ہوگا، ان کی تنخواہوں اور ریٹائرمنٹ کا نیا پیکیج جاری کیا جائے گا۔ سب سے بڑھ کر تیسری بار وزیراعظم بننے کی راہ میں قانونی رکاوٹ اسی آرڈیننس کے ذریعے ختم کی جائے گی۔ ہم تو کہتے ہیں کہ فرض کریں صدر کو اختیار بھی ہو کہ وہ پارلیمنٹ کی غیرموجودگی میں آرڈیننس جاری کرسکتے ہیں مگر اخلاقی طور پر اس کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ نئی اسمبلیوں کے انتخابات ہورہے ہوں اور صدر آرڈیننس جاری کرتے پھریں۔ ہاں اگر کوئی ایمرجنسی ہو تو الگ بات ہے ورنہ عام قسم کے اقدامات کیلیے دو تین ماہ انتظار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔

صدرمشرف نے شروع میں جتنا اپنے آپ کو سچا، کھرا، قول کا پکا اور ہٹ دھرم ثابت کرنے کی کوشش کی بعد میں اتنا ہی انہوں نے اپنے اقدامات سے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ ذاتی مفاد کی خاطر اپنی زبان سے بھی پھر سکتے ہیں۔ صدر مشرف اب تک دو دفعہ سے زیادہ وزیراعظم نہ بننے کے حق میں اس قدر دلائل دیتے رہے ہیں کہ اس بات کا امکان نظر ہی نہیں آتا تھا کہ ایک دن وہ یہ یو ٹرن بھی لے لیں گے۔

ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ نگران حکومت اور صدر مشرف کو ایسے اقدامات سے پرہیز کرنا چاہیے جن کے بغیر گزارہ ہوسکتا ہو اور ان کو آنے والی جمہوری حکومت کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔

 آنے والی حکومت اگر پاکستان کے ساتھ مخلص ہوئی تو وہ ضرور آرڈیننسوں کے رواج کو ختم کرنے کا قانون پاس کرے گی اور نگران حکومت کے اختیارات کو بھی انتخابات کرانے تک محدود کردے گی۔