ہم اپنی کئی تحاریر میں شوکت عزیز صاحب کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہ چکے ہیں کہ وہ غیرملکی آقاؤں کے ایجنڈے پر پاکستان آۓ اور انہی کی پالیسیوں پر عمل کیا۔ آج ان کی بیرون ملک روانگی کی خبر ایکپریس اخبار میں پڑھ کر تصدیق ہوگئی کہ وہ بھی معین قریشی کی طرح اپنی ڈیوٹی مکمل کرکے اپنے ملک واپس چلے گئے۔

 اب ترقی پذیر ملکوں پر غیروں کی حکمرانی کے انداز بدل چکے ہیں۔ پہلے غیرملکی خود ملک فتح کرکے حکومت قائم کیا کرتے تھے اب انہیں ملک فتح کرنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ ہر غریب ملک میں ایک ایک اینٹ کے نیچے سو سو غدار چھپے بیٹھے ہیں جو ایک اشارے پر اپنے ہی ملک کو دیوالیہ بنا سکتے ہیں۔

 پہلے معین قریشي نے عبوری حکومت کے دور میں یہی کچھ کیا اور اب شوکت عزیز نے۔ دونوں نے غیرملکی آقاؤں کی پالیسیاں اپنائیں جن کی بنا پر ملکی صنعت کا بیڑہ غرق ہوگیا۔ اسی شوکت عزیز نے آٹھ سال تک ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا اور اس کی انہی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج ملک میں آٹے، بجلی اور گیس کا بحران لوگوں کی زندگیاں اجیرن کیے بیٹھا ہے۔ شنید یہی ہے کہ شوکت عزیز آٹھ سال میں سٹاک ایکسچینج، پراپرٹی اور پرائیوٹائزیشن میں اربوں کما کر کروڑ پتی سے ارب پتی بن چکے ہیں۔ پتہ نہیں اس لوٹ مار میں شوکت عزیز نے اپنے ساتھیوں کی کتنی تجوریاں بھری ہوں گی۔

شوکت عزیز کو ان کے آقاؤں نے پاکستان بطورکالا صاحب وائسرائے بنا کر بھیجا۔ انہوں نے وزیرخزانہ اور پھر وزیراعظم بن کر ملکی پالیسیاں غیروں کی مرضی کیمطابق ترتیب دیں۔  اب جب ان کی ضرورت نہ رہی تو پھر ان کی خدمات واپس لے لی گئیں۔

آج جب وہ غیرملک روانہ ہوئے تو وہ براستہ لاؤنج کی بجائے کار کے ذریعے طیارے تک پہنچے۔ ایک سابق وزیر اعظم جسے وزارت عظمیٰ کی مدت پوری ہونے پر گارڈ آف آنردیا گیا آج ائرپورٹ پر تنہا تھا۔ نہ انہیں ان کی پارٹی کے عہدیدار رخصت کرنے کیلیے آۓ اور نہ ہی کوئی حکومتی شخصیت۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ شوکت عزیز کی جگہ پر کرنے کیلیے قرعہ فال کس بے وفا اور غیرمحب وطن کے نام نکلتا ہے۔