ہم شروع سے کہتے آئے ہیں کہ اگر آج صدر مشرف اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں اور افواج پاکستان کوبلوچستان اور شمالی علاقوں سے واپس بلا لیں تو خودکش دھماکے روکے جاسکتے ہیں۔ اس دلیل کی مخالفت کرنےوالے صرف ایک ہی بات کہتے ہیں کہ اس طرح کی حماقت دہشت گردوں کے حوصلے مزید بڑھا دے گی اور ہم کب تک دہشت گردوں کے آگے بچھتے رہیں گے۔ ہمیں سخت رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ یہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ ابھی تک نہ تو فوج مکمل فتح حاصل کرسکی ہے اور نہ حکومت خود کش حملوں سے اپنے اہلکاروں اور عوام کو بچا سکی ہے۔

ہم مانتے ہیں کہ ایک حکمران کیلیے کرسی چھوڑنا دنیا کا مشکل ترین بلکہ ناممکن کام ہوتا ہے۔ مگر تاریخ میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو ناممکن کو ممکن کرکے دکھاتے ہیں۔ جو حکمران اس طرح کے مشکل فیصلے نہیں کرپاتے انہیں تاریخ بھلا دیتی ہے اور وہ شاہ فیصل مسجد کے سامنے دفن ہونے کے باوجود عام پبلک کے ذہنوں سے محو ہوجاتے ہیں۔

یہ ایک سنہری موقع ہے صدر مشرف کیلے اپنے پچھلے کرتوتوں کی بخشش کرانے اور تاریخ میں نام رقم کرنے کا۔ اگر آج صدر مشرف “سب سے پہلے پاکستان” کیلیے اپنی کرسی کی قربانی دے دیں تو پھر لوگ یہ بھی بھول جائیں گے کہ وہ بہت بڑے شرابی اور رنڈی باز تھے۔

یہ حل ہم اس لیے وثوق سے پیش کررہے ہیں کیونکہ ہم نے جنرل ضیاء کی موت اور جمہوری نظام کی بحالی کے بعد خودکش دھماکے ختم ہوتے دیکھے ہیں۔

اس سے قبل ایوب خان نے مولانا مودودی کو سازش کیس میں اندر کیا،  بھٹو نے ولی خان کو بغاوت کے کیس میں اندر کیا، بلوچستان کی حکومت ختم کی مگر کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ بعد میں جب جنرل ضیاء نے ولی خان کیخلاف مقدمات واپس لے لیے تو صورتحال معمول پر واپس آگئی۔

اب بھی اگر ملک کو بچانا ہے تو پھر جنرل مشرف کو کرسی چھوڑ دینی چاہیے۔ فوج کو اپنے ہی لوگوں کیخلاف نبرد آزمائی سے روک دینا چاہیے تاکہ فوجیوں اور پولیس کیخلاف خودکش حملوں کو ختم کیا جاسکے۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ یہ کام آسان نہیں ہے۔ آسان یہی ہے کہ ایک آدمی ایوان صدارت ميں بیٹھا مزے لوٹتا رہے اور غریب عوام دہشت گردی کا شکار بنتے رہیں۔

 صدر مشرف سوچتے ہوں گے جب لوگوں کو ان کی کرسی سے کوئی سروکار نہیں ہے تو پھر وہ کرسی کیوں چھوڑیں۔ کیونکہ عوام اب کسی بھی احتجاجی تحریک کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اس کی وجہ بھی سیاستدانوں کی خود غرضیاں ہی ہیں۔ عوام یہی سمجھتے ہیں کہ پہلے کتنی احتجاجی تحریکیں چلائیں مگر ان کے حالات نہیں بدلے بلکہ الٹا نقصان ہی ہوا۔ صدارت جائے بھاڑ میں، وہ تو روزی روٹی کمانے کی فکر کرتے رہیں گے تاکہ وہ اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کا سامان جمع کر سکیں۔