جب آدمي کا موجودہ قيادت پہ اعتماد نہ ہو اور اسے اس قيادت کاہر ايکشن مشکوک نظر آتا ہو تو پھر اس کي ہر تحرير ميں تنقيد ہي تنقيد دکھائي ديتي ہے۔ ہم لاکھ کوشش کرتےہيں کہ موجودہ حکومت کي خوبياں تلاش کريں مگر جب اس کے ماضي پر نگاہ دوڑاتے ہيں تو اس کي ہر حکمت عملي سراب لگتي ہے۔ اس کا ہر ايکشن فراڈ لگتا ہے۔
جب آپ وردي اتارنے کے وعدے سے مکر جائيں۔ جب آپ کا وزير کھانہ دير سے آنے پر بيرے کي پٹائي کر دے اور آپ خاموش رہيں۔ جب آپ نيب کا ڈراوا دکھا کر پي پي پي کے لوگوں کو پيٹرياٹ بنا کر ساتھ ملا ليں۔ جب آپ چن چن کے مسلمانوں کو پکڑ کر اپنے آقاؤں کے حوالے کرتے جائيں تو پھر تنقيد نہں ہو گي تو کيا تعريف ہوگي۔
يہي حال اس سے پہلے والے حکمرانوں کا رہا ہے۔ کسي نے ملک توڑا کسي نے قرض مکاؤ مہم چلائي کوئي مسٹر ٹين پرسينٹ کہلايا کسي نے اسلام کے نام پر گيارہ سال حکومت کي کسي نےجمہوري حکومتيں برطرف کيں کسي نے ڈکٹيٹروں کے اقتدار مستحکم کۓ اور کسي نے کشمير کاز کو نقصان پہنچايا۔ اتنے سارے حادثات ديکھنے کے بعد دل کسي کي نيت پر شک نہ کرے تو اور کيا کرے۔ اب تو اتني چوٹيں کھائي ہيں کہ ہر حاکم ظالم لگتا ہے اور ہر امير لٹيرا معلوم ہوتا ہے۔ اے خدا ہميں نيک حکمران عطا فرما جو قوم کو تنزلي کي بجاۓ ترقي کي طرف لے جائيں تاکہ ہم بھي اپني تحريروں ميں ان کي تعريفيں کرتے نہ تھکيں۔ جب تک اس طرح کے خودغرض حکمرانوں سے پالا رہے گا ہمارا قلم يوں ہي آگ اگلتا رہے گا۔