ہم صدرمشرف کے یورپی دورے کو قومی سرمائے کا ضیاع ہی کہیں گےکیونکہ انہوں نے اس دورے میں نہ تو کوئی تجارتی معاہدہ کیا اور نہ ہی پاکستانیوں کیلیے کوئی رعایت حاصل کی۔ اگر دیکھا جائے تو صدر مشرف نے اپنا دورِ حکمرانی اپنے آقا صدربش کی طرح صرف دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑتے ہوئے گزارا ہے اور ابھی تک گزار رہے ہیں۔

 صدر مشرف کو اپنے 80 ویں غیرملکی دورے کی تمام پریس کانفرنسوں میں اپنے سابقہ اقدامات کا دفاع کرنا پڑا لیکن وہ اس میں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ جب ان پر چبھتا ہوا سوال داغا جاتا تو وہ سول صدر کی بجائے فوجی صدر کی شکل میں دفاع کرتے ہوئے نظر آتے۔ انہوں نے بہت سارے سوالات کے جوابات غلط دیے یعنی انہوں نے دھڑلے سے جھوٹ بولا۔

جب صحافی ضياالدین نے پاکستانی راشد رؤف کے جیل سے بھاگ جانے کے متعلق سوال کیا تو صدر مشرف اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور صحافی پر برس پڑے۔ اسی طرح ان سے جب انسانی حقوق، قانونی عملداری اور شفاف انتخابات کے متعلق پوچھا گیا تو وہ کوئی واضح جواب دینے کی بجائے الٹے نامہ نگاروں سے پوچھتے نظر آئے کہ بتاؤ میں کیا کروں۔ انہوں نے ایسے صحافیوں کی ٹھکائی کا بھی مطالبہ کیا جو ان کی نظر میں ملکی مفادات کیخلاف لکھتے ہیں۔

قانون کی دھجیاں جس طرح صدر مشرف نے اڑائی ہیں ان کا دفاع کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کا دفاع کرپائے۔ کالم نگار جاوید چوہدری نے سچ لکھا ہے کہ ہرکوئی پاکستان میں قانون توڑنے پرفخر کرتا ہے اور جتنا زیادہ کسی کے اختیار میں ہے وہ اتنی بڑی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ سابق وزیر قانون افتخار گیلانی سے جب اے ایس پی نے اپلائیڈ فار گاڑی کے کاغذات مانگے تو اگلے دن اس کی ٹرانسفر کرادی گئی کیونکہ ان کے اختیار میں اتنا ہی تھا۔ صدر مشرف کیونکہ زیادہ بااختیار تھے اسلیے انہوں نے ججوں کو ہی برطرف کردیا۔

صدرمشرف کو ہرجگہ ایٹمی اثاثوں کے بارے میں چبھتا ہوا سوال سننا پڑا۔ اچھا ہوتا اگر وہ اس سوال کا جواب اس طرح دیتے کہ پاکستان ایک ملک ہے کوئی چھوٹا سا جزیرہ نہیں جہاں پر ڈاکوؤں کے راج کی بجائے ایک حکومت قائم ہے اور جس کے پاس لاکھوں کی تعداد میں فوج ہے۔ کبھی کبھی تو ہمیں خود حیرانی ہوتی ہے کہ یورپ نے ایٹمی اثاثوں کو اتنا بڑا ایشو کیوں بنایا ہوا ہے۔

صدرمشرف نے اسرائیلی وزیردفاع سے خفیہ ملاقات کی اور اس کی تفصیل بتانے سے بھی گریز کیا۔ پھر انہوں نے اپنے ہم منصب کی بجائے ایک وزیر سے غیرطے شدہ ملاقات کرکے پاکستان کیلیے شرمندگی کا باعث بنے۔

صدر مشرف نے الطاف بھائی، برگیڈیئر نیاز اور اپنے سابق وزیراعظم شوکت عزیز سے بھی فضول میں ملاقات کی۔ الطاف بھائی سے ملاقات کرکے انہوں نے اپنی غیرجانبداری مشکوک بنا دی۔ برگیڈیئر نیاز سے ملاقات کرکے انہوں نے اس شک پر مہر لگا دی کہ ان کے پس پردہ نوازشریف سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔

صدر صاحب نے اپنے دورے کے دوران مہنگائی کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں بھی جھوٹ بولا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اب بھی اشیائے ضرورت دوسرے ممالک سے کم قیمت پر دستیاب ہیں۔ اس جھوٹ کا پول روزنامہ ایکسپریس نے دوسرے ممالک سے پاکستانی قیمتوں کا موازنہ کرکے کھول دیا۔

صدر مشرف نے اپنی غیرمقبولیت کو بھی ماننے سے انکار کردیا اور سرویز کو ماننے کی بجائے خود سے اپنی مقبولیت کو جاننے کا انوکھا خیال پیش کیا۔ 

اچھا ہوتا اگر صدر مشرف اس دورے کے دوران فرانس کے صدر اور انگلینڈ کے وزیراعظم سے پاکستانیوں کے لیے مراعات حاصل کرتے اور کچھ معاہدوں پر دستخط کرتے۔ مگر چونکہ ان کا یہ دورہ پاکستان کیلیے نہیں بلکہ اپنی ساکھ بحال کرنے کیلیے تھا اسلیے انہوں نے ساری توجہ صرف اپنے اوپر ہی دی جوکہ خودغرضی کے زمرے میں آتی ہے۔ صدر صاحب کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حکمرانوں کی خودغرضی ان کے اپنے ملک کیلیے انتہائی نقصاندہ ہوتی ہے۔  خدا صدر صاحب کو عقل سلیم دے تاکہ وہ “سب سے پہلے میں” کی بجائے “سب سے پہلے پاکستان” کے نعرے پر عمل درآمد کرسکیں۔