سندھ ہائی کورٹ نے بارہ مئی کے سانحے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے جو تحقیقات شروع کی تھیں وہ نئے ججوں کے وجود میں آنے کے بعد بیکار ہوگئیں اور آج سندھ ہائی کورٹ نے اس کیس کو نمٹا کر ثابت کردیا کہ وہ اپنے آقا کا حق نمک ادا کررہی ہے۔ اتنے واضح ثبوت ہونے کے باوجود کسی کو مورد الزام نہ ٹھرانا اور صرف معاوضوں کی سفارش کرکے کیس نمٹا دینا یہی ثابت کرتا ہے۔

اس فیصلے کے بعد ایم کیو ایم تو کم از کم قانون کی نظر میں بارہ مئی کے سانحے کی ذمہ داری سے بری ہوگئی ہے۔ لیکن شاید وہ اپنے بری ہونے کا کامیابی سے دفاع نہ کرسکے کیونکہ موجودہ سندھ ہائی کورٹ کے جج انہی کی حکومت نے نئے پی سی او کے تحت چنے ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ تو اسی دن ڈر گئی تھی جب ایم کیو ایم نے اس پر چڑھائی کردی تھی اور کئی روز تک اس کا گھیراؤ کئے رکھا تھا۔ کہتے وہ یہی تھے کہ عام پبلک اپنا بیان ریکارڈ کرانے آئی ہے مگر حقیقت میں وہ عدالتی کاروائی میں خلل ڈالنا چاہتے تھے جس میں وہ کامیاب بھی ہوگئے کیونکہ بعد میں ان کے آقا جنرل مشرف نے سندھ ہائی کورٹ کے ججوں کی بساط لپیٹ کر ان کی مشکل آسان کردی۔

اب جہاں سندھ ہائی کورٹ نے بارہ مئی کے سانحے کے ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا وہیں سپریم کورٹ نے بھی گم شدہ افراد کا کیس داخل دفتر کیا ہوا ہے۔ اسی طرح جتنے سوموٹو ایکشن پہلے ججوں نے لیے تھے وہ سب داخل دفتر کردیے گئے ہیں۔ موجودہ ججوں کا وکلا کافی عرصے سے بائیکاٹ کئے ہوئے ہیں اور جج حضرات فارغ وقت میں بارہ مئی کے سانحے جیسے کیس نمٹا رہے ہیں۔

اگر پرانےجج بحال ہوتے تو اب تک بجلی، گیس، آٹے اور گھی کے بحران کا بھی نوٹس لے چکے ہوتے۔ مگر موجودہ ججوں کو چونکہ جنرل پرویز کی وجہ سے کرسیاں ملی ہیں اسلیے وہ انہی کے گن گارہے ہیں۔ ان ججوں کو نہ بجلی کی کمی ہے اور نہ گھی اور آٹے کی۔ کمی ہے تو صرف آزادی سے فیصلے کرنے کی۔ یہ کمی لگتا ہے ان کی نوکری کے ساتھ ہی جائے گی۔