آدمی جب بچہ ہوتا ہے تو وہ ماں باپ کی تربیت اور ہدایت کی وجہ سے نیک راہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جونہی وہ ہوش سنبھالتا ہے اسے ماں باپ میں طرح طرح کے عیب نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں اور وہ ان کی ہدایات کو رد کرنے لگتا ہے۔ لیکن جب وہ اپنی سمجھ بوجھ کی کمی کی وجہ سے عملی زندگی میں کامیاب نہیں ہوتا تو پھر سارا الزام ماں باپ کے سر تھوپ دیتا ہے۔ ہم ایک دو حقیقی مثالوں سے اس نقطے کی وضاحت کریں گے تاکھ بات سمجھنے میں آسانی رہے۔

ہمارے ایک عزیز کے والد پولیس آفیسر تھے اور انہوں نے ساری عمر حرام سے اجتناب کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ ریٹائر ہوئے ان کے تمام بچے پڑھ لکھ تو گئے مگر ان کے پاس بچوں کو دینے کیلیے وراثت میں کچھ نہیں بچا تھا۔ ان میں سے چند نے بعد میں والدین سے گلہ کرنا شروع کردیا کہ انہوں نے اپنی اولاد کیلیے کیا کیا۔

اسی طرح ایک صاحب کو والدین اپنی غریبی کی وجہ سے پڑھا نہ سکے اور انہوں نے اسے مکینک بنا دیا۔ وہ صاحب محنت سے جی چراتے تھے اسلیے کوئی خاص ترقی نہ کرسکے اور موردِ الزام والدین کو ٹہراتے رہے کہ انہوں نے اسے پڑھایا نہیں وگرنہ آج وہ آفیسر ہوتے۔

ہمیں اکثر جب اس طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے تو ہمارا جواب یہ ہوتا ہے کہ چلو مان لیا کہ والدین نے تمہارے لیے کچھ نہیں کیا۔ اب تمہارے پاس وقت ہے تم خود سے کچھ کرکے دکھا سکتے ہو۔ اس کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے اور وہ صاحب جان چھڑا کے بھاگ جاتے ہیں۔

ہمارا ایک عزیز جسے والدین نے پہلے قرآن حفظ کرنے  کیلیے مدرسے داخل کرایا، پھر اسے عربی فاضل کی تعلیم دلوائی۔ عزیز سمارٹ تھا اس نے مسجد سنبھالنے کی بجائے عربی فاضل کے بعد تعلیم جاری رکھی اور عربی میں گولڈ میڈل کیساتھ ایم اے کرلیا۔ اسے یونیورسٹی میں پروفیسری مل گئی اور بعد میں اس نے مزید ڈبل ایم اے، ایل ایل بی اور پھر پی ایچ ڈی بھی کرلی۔ آج وہ کامیاب عملی زندگی گزار رہا ہے۔

لوگ عملی زندگی میں ناکامی کا ذمہ دار والدین کو ٹھراتے ہیں، پڑھائی میں ناکامی کا ذمہ دار اساتذہ کو، نوکری میں ناکامی کا ذمہ دار اپنے باس کو، مدرسے سے بھاگنے کا الزام استاد کی سختی کو، بری صحبت کا شکار ہونے کا الزام اپنے دوستوں کو، ازدواجی زندگی میں ناکامی کا ذمہ دار اپنی بیوی کو، بچوں کے بگڑنے کا الزام قسمت کو۔ غرض کہ ہماری اپنی رائے میں ہر ناکامی کا کوئی نہ کوئی ذمہ دار ہوتا ہے سوائے اپنے آپ کے۔ ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہمارا بھی کوئی عمل ایسا ہوگا جس کی وجہ سے ہم ناکام ہوئے۔ اگر استاد سخت تھا، تو پڑھائی اچھی طرح کرتے تاکہ مار سے بچے رہتے، اگر والدین غریبی کی وجہ سے پڑھا نہیں سکے تو عملی زندگی میں آنے کے بعد پھر سےپڑھائی شروع کردیتے۔

 ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ جس حل میں ہمیں محنت زیادہ کرنی پڑے وہ ہمیں قابل قبول نہیں ہوتا۔

مطلب یہی ہے کہ اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر لگانا بہت آسان ہے اور اپنے گریبان میں جھانکنا بہت مشکل۔ ہم ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی غلطی کو دوسروں کے سر منڈھ دیں اور خود بری الزمہ ہوجائیں۔ ہم یہ تک نہیں سوچتے کہ اگر دوسروں کی غلطی کی وجہ سے ہمارا نقصان ہوا ہے تو اس کا ازالہ کرنے کا جو وقت ہمیں ملا تھا اسے ہم نے ضائع کیوں کردیا۔

والدین اولاد کو میڑک یا پھر ایف ایس سی تک دبا کے رکھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد آدمی آزاد ہوتا ہے اور اٹھارہ انیس سال کی عمر کے بعد اگر وہ کچھ حاصل نہیں کرتا تو اس کا وہ خود ذمہ دار ہے ناں کہ والدین یا دوست احباب۔

ایک ٹینس کے کھلاڑی آرتھر ایش کا قول ہے کہ وہیں سے شروع کرو جہاں تم ہو، وہی تم کرو جو تم کرسکتے ہو اور وہی ذرائع استعمال کرو جو تمہیں میسر ہیں۔ یعنی اپنی کسی مہم کو اسلیے درمیان میں نہ چھوڑ دو کہ اب وقت گزر چکا ہے، یا پھر اس اس چیز کی کمی ہے اور نہ ہی ایسی مہم کا آغاز کرو جو تمہارے لیے ناممکن ہو۔

ہمیں ہمیشہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہر ناکامی کو پرکھتے وقت دوسروں کی بجائے اپنی غلطیوں کا جائزہ لیں اور انہی کو اولیت دیں۔  پھر ان غلطیوں کا ازالہ کرکے اپنی مہم دوبارہ شروع کردیں۔ ہم اگر اپنی غلطیوں کی نشاندہی نہیں کریں گے تو اپنی ناکامیوں سے کبھی جان نہیں چھڑا پائیں گے۔