اگرآپ انڈسٹري میں کام کرتے ہيں تو آپ نے ٹيم ورک کے بارے ميں ضرور سنا ہو گا۔ اگر آپ کھلاڑي ہيں تو بھي آپ نے کوچ سے ٹيم ورک پر ليکچر کئ دفعہ سنا ہوگا۔ اس ترقي کے دور ميں ٹيم ورک کي خوبي بہت زيادہ اہميت اختيار کرگئي ہے اور يہ کمال آدمي صرف تجربے اور پلاننگ سے حاصل کرتا ہے۔
اس ٹيم ورک کي بہتريں مثال آپ کو موجودہ ورلڈ ٹیم بمقابلہ آسٹريليا کرکٹ سيريز ميں نظر آئي ہوگي۔ اس سيريز ميں دنيا کے ٹاپ کے ريٹائرڈ کرکٹرز نے دنيا کے ورلڈ کلاس کھلاڑيوں کي ايک ٹيم بنائي۔ يہ ٹيم بناں کسي پريکٹس اور پلاننگ کے بھان متي کا کنبہ ثابت ہوئي اور آسٹريليا کي ٹيم سے اس طرح ہاري جس طرح نئ ٹيم اپنے شروع کے ميچوں ميں ہارتي ہے۔ اس ورلڈ تيم کي پرفارمنس تو بنگلہ ديش اور زمبابوے کي کرکٹ ٹيموں سے بھي گئي گزري نظر آئي۔ تينوں ون ڈے اور ايک ٹيسٹ ہار کر ورلڈ ٹيم کے کھلاڑيوں نے ثابت کر ديا کہ ان ميں ٹيم ورک کا فقدان تھا اور ہر کھلاڑي کي انفرادي قابليت اس کي ٹیم کو فتح نہ دلا سکي اسلۓ کہ اس ٹيم کے کھلاڑي کبھي ايک ہو کر کھيلے ہي نہيں۔
يہي حال قوموں کا ہے جن قوموں نے ٹيم ورک کيا وہ ترقي کر گئيں اور جو بناں پلاننگ کے منزل کي طرف روانہ ہوئيں راستہ بھول گئيں اور کبھي بھي ترقي نہ کرسکيں۔
پاکستان کي مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہم لوگوں نے کوئي بھي نظام مستقل نہيں اپنايا اور ہر دو چار سال بعد قوم نۓ نۓ تجربے کرتي رہي۔ کبھي ہم نے مارشل لا ديکھا، کبھي بي ڈي کا نظام، کبھي پارليماني نظام اور کبھي صدارتي نظام کا مزہ چکھا۔ يہي وجہ ہے کہ ہم کسي ايک نطام ميں ماہر نہيں ہو سکے اور نہ ہي ہم ترقي کرسکے۔ اب بھي ہم ايک نۓ تجربے سے گزر رہے ہيں اور پتہ نہيں يہ فوجي جمہوريّت کيا رنگ لاۓ گي۔
ہماري تجويز تو يہي ہے کہ براۓ مہرباني کسي ايک نطام کو پکڑ ليجۓ اور پھر اسي پر چلتے جايۓ منزل پھر مل ہي جاۓ گي۔