ڈاکٹرفہمیدہ مرزا نے قومی اسمبلی کی سپیکر منتخب ہو کر پاکستان میں ایک اور تاریخ رقم کردی ہے۔ پیپلز پارٹی نے عورت کو سپیکر منتخب کرکے اپنے لبرل ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن کیا ایک عورت مردوں کی اس سبزی منڈی میں آرڈر برقرار رکھ سکے گی؟ کیا ایک عورت کے حکم پر مرد چیخ و پکار، گالی گلوچ اور مارا ماری سے باز آجائیں گے؟ امید یہی ہے کہ ڈاکٹرفہمیدہ جو ایک سیاسی خاندان کی چشم و چراغ اور آصف زرداری کے قریبی دوست ڈاکٹرذوالفقار مرزا کی زوجہ بھی ہیں اپنی صلاحیتوں اور آصف زرداری کی سپورٹ کو بروۓ کار لاتے ہوئے قومی اسمبلی کو کامبابی سے لیڈ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔

پچھلے چند سالوں سے پاکستان میں خواتین کے عملی زندگی میں سرگرم ہونے کی رفتار بہت تیز ہوچکی ہے۔ اس وقت عام پبلک میں برقعہ پہننے کا رواج معدوم ہوتا جارہا ہے۔ یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور لڑکیاں تعلیمی میدان میں لڑکوں کو پیچھے چھوڑتی جارہی ہیں۔ پولیس، بنک اور فوج کے اداروں نے تو لڑکیوں کو دل کھول کر ملازمتیں دی ہیں۔ اب تو یہ حال ہوچکا ہے کہ کوئی سرکاری محکمہ یا ذاتی کاروبار ایسا نہیں جہاں عورت کام نہ کر رہی ہو۔

 وکلاء کی تحریک میں خواتین کا کردار بھی قابل ستائش رہا ہے اور انہوں نے مردوں کے شانہ بشانہ ہر احتجاج میں بھرپورحصہ لیا ہے۔

 میڈیا میں تو عورتیں مکمل طور پر چھا چکی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی  وجہ شاید ان کی نسوانی خوبصورتی بھی ہوتی ہوگی مگر اپنی فنی صلاحیتوں کی وجہ سے بھی عورتوں نے صحافت میں قدم جما ئے ہیں۔  جنرل ضیاء کے دور میں جب ایک لیڈی میزبان مہتاب چنہ نے ٹی وی پروگرام میں سر پر دوپٹہ لینے سے انکار کردیا تھا تو اس کا بہت چرچا ہوا تھا۔ مگر ضياء دور کے بعد خواتین ٹی وی نیوز ریڈرز اور اینکرز کے سر سے دوپٹہ بالکل غائب ہو گیا۔ اب تو عورتیں ٹی وی پر مغربی لباس ميں بھی نظر آنے لگی ہیں۔ ہمیں آج تک ایک بات کی سمجھ نہیں آسکی کہ اگر دوپٹہ سر پر نہیں لینا تو پھر اسے گلے میں لٹکانے کا کیا مقصد ہوتا ہے۔ بھئی اگر سر پر دوپٹے کا بوجھ اچھا نہیں لگتا تو پھر کندھے پر سے بھی اس کا بوجھ اتار دو۔ شاید ابھی دوپٹے کو کلچر کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جس رفتار سے لباس بدل رہے ہیں، دوپٹے کو کندھے سے بھی  اترنے میں اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

مردوں کی سوسائٹی میں خواتین عملی زندگی میں ابھی نووارد ہیں اسلیے انہیں بہت سارے حقیقی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خواتین کی عملی زندگی کی وجہ سے ہماری معاشی اقدار اور گھر گرہستی کی روایات کو بدلنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا مگر امید ہے میڈیا ان اقدار کو پرامن طریقے سے بدلنے میں بہت مددگار ثابت ہو گا۔ ایک وقت تھا عورت کا سپاہی اور نرس ہونا معیوب سمجھا جاتا تھا مگر اب مہنگائی اور مالی پریشانیوں نے مردوں کو عورتوں کے بارے میں اپنی سوچ بدلنے پر مجبور کردیا ہے۔ پہلے مرد شادی کیلیے ملازم پیشہ عورت پر گھریلو لڑکی کو ترجیح دیتے تھے مگر اب ان کی پسند ایک سو اسی درجے ٹرن لے چکی ہے اور وہ ملازم پیشہ عورت کیساتھ شادی کو خوش قسمتی سمجھنے لگے ہیں۔

اگر عورتوں کی عملی زندگی میں داخلے کی یہی رفتار رہی تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستانی معاشرہ بھی یورپ کی ہمسری کرتے ہوئے بیروزگاری کے اعدادوشمارمیں مردوں عورتوں دونوں کو شامل کرنے لگے گا۔ واقعی عالمی میڈیا اور صنعتی ترقی نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنا دیا ہے۔ جو فاصلے کبھی مہینوں میں طے ہوتے تھے اب گھنڈوں میں طے ہورہے ہیں اور جو پیغامات ہفتوں میں موصول ہوتے تھے وہ اب سیکنڈوں میں موصول ہو رہے ہیں۔ اسی ترقی کی بدولت ہمارے معاشرے  میں  عورتوں کی عملی زندگی میں شمولیت کی رفتار تیز ہوئی ہے۔