پچھلے دوسالوں میں وکلا کے چند ایک پرامن احتجاجی مظاہروں کو چھوڑ کو باقی سب مظاہرے تشدد پر ہی ختم ہوئے ہیں۔ وکلاء کے پرامن مظاہرے جب عام پبلک کو اپیل کرنے لگے تو پھر ان کو بھی تشدد میں تبدیل کردیا گیا۔ پرامن مظاہرے کرنے میں کسی کو اعتراز نہیں ہے مگر عام پبلک کا یہ خیال ہے کہ ان پرامن مظاہروں کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ غائب شدگان کے لواحقین کے پرامن مظاہروں کی مثال لے لیجئے ابھی تک ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔ حالانکہ ان لوگوں نے احتجاج کیساتھ ساتھ حکمرانوں سے باری باری ملاقات بھی کی مگر کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اسی طرح ملک میں جاری بجلی کے بحران کیخلاف بھی کئی علاقوں میں پرامن مظاہرے ہوچکے ہیں مگر حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کر ملتان میں پرتشدد احتجاج ہوا جس میں مظاہرین نے بھی گولیاں چلائیں اور جن کے خلاف مظاہرہ کیا گیا انہوں نے بھی۔ اس کے بعد رہی سہی کسر پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعمال کرکے پوری کردی۔

پرامن مظاہرے کو پرتشدد مظاہرے میں بدلنے کیلیے اوپر بیان کردہ وجہ کے علاوہ چند اور وجوہات بھی ہیں۔ جب پرامن مظاہرے فریق مخالف کی بقا کا مسئلہ بن جاتے ہیں تو پھر فریق مخالف یا تو پرتشدد مظاہرے کرتا ہے یا وہ پرامن مظاہرے پر حملہ کرکے نہتے شہریوں کو ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی مثال کراچی کے ۱۲ مئی اور ۹ اپریل کے پرتشدد واقعات ہیں جن میں ججوں اور وکلاء کے بڑھتے ہوئے اثر کو زائل کرنے کیلیے پرتشدد مظاہرے کئے گئے۔

جب پرامن مظاہرے طاقت پکڑنے لگتے ہیں تو پھر حکومت انہیں دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کوشش کیلیے وہ پولیس اور فوج کا استعمال کرتی ہے۔ جب پرامن مظاہرین پر گولیاں برسائی جاتی ہیں تو پھر وہ اپنے دفاع میں تشدد پر اتر آتے ہیں۔ اس مارکٹائی میں نقصان دونوں فریقین کا ہوتا ہے اور آخر میں کمزور فریق ہار مان لیتا ہے۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکومت وقت پرامن مظاہرین کو وقتی طور پر ٹھنڈا کرنے کیلیے ان کے مطالبات ماننے کا اعلان کردیتی ہے۔ مگر جب حکومت اپنے وعدے ایفا کرنے سے ہچکچانے لگتی ہے تو پھر مظاہرین تشدد پر اتر آتے ہیں۔ ان پرتشدد مظاہرین کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور طاقتور کو فتح حاصل ہوجاتی ہے

اگر حکومت وقت پر پرامن مظاہروں کا نوٹس لے لے اور مظاہرین کو مطمعن کر دے تو پھر مظاہروں سے تشدد ختم ہوسکتا ہے۔ دوسرے پرامن مظاہروں کیلیے ہماری عوام کو تربیت کی ضرورت ہے۔ حکومت نے غیروں کے کہنے پر تو ہمارے نصاب میں بہت ساری تبدیلیاں کرلیں مگر معاشرے کی تربیت کیلیے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ یعنی طالبعلموں کو اچھے شہری بنانے کیلیے نصاب میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی اساتذہ کو تربیت دی گئی ہے۔ معاشرے کی تربیت ماں کی گود کے بعد سکول سے شروع ہوتی ہے اور اس کا مظاہرہ ہم یورپ کے معاشرے میں دیکھ سکتے ہیں جہاں سکولوں میں ہرطرح کا ڈسپلن قائم رکھا جاتا ہے اور طالبعلموں کو اچھا شہری بنانے کیلیے اساتذہ بہت محنت کرتےہیں۔ ہماری حکومت کی چونکہ نیت ٹھیک نہیں ہوتی اور حکومتی کارندے اسی طرح معاشرے کے بگاڑ کے بدلے اپنی جھولیاں بھر رہے ہوتے ہیں جس طرح قحبہ خانے کے مالک یعنی کنجر اپنی ماؤں بہنوں کی آبروؤں کو نیلام کرکے دولت سمیٹ رہے ہوتے ہیں۔

احتجاجی مظاہرے صرف مہذب معاشرے میں پرامن ہوتے ہیں اور کہیں نہیں۔ اسلیے احتجاجی مظاہروں کو تشدد سے پاک رکھنے کیلیے معاشرے کو مہذب بنانا پڑے گا وگرنہ ایک دن یہی مظاہرے ملک بھی گنوا سکتے ہیں۔