جنرل مشرف کے ایک روشن خیال مسلمان وزیر تعلیم ریٹائرڈ جنرل جاوید اشرف قاضی نے دوسال قبل ایک انٹرویو میں قرآن پاک کے سپاروں کی تعداد تیس کی بجائے چالیس بتائی تھی اور بعد میں اسے زبان کی پھسلن قرار دیا تھا۔

کل شاہ رخ کے پروگرام “ہم پانچویں جماعت سے تیز ہیں” میں ایک مسلمان خاندان کا نام کا مسلمان اداکار سیف علی خان اپنی ہندو گرل فرینڈ کرینا کپور کیساتھ حصہ لے رہا تھا اور شاہ رخ کے سوالوں کے جوابات دھڑا دھڑ دے رہا تھا۔ جب شاہ رخ نے سوال پوچھا “مسلمانوں کی عیدالفطر رمضان سے پہلے آتی ہے یا بعد میں” پہلے تو سیف علی خان نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولا “عیدالفطر مسلمان رمضان کے “چالیس” روزوں کے بعد مناتے ہیں”۔

اسے کہتے ہیں روشن خیالی۔ ایک مسلمان ملک کے مسلمان وزیر نے قرآن کے تیس کے چالیس سپارے بنا دیے اور دوسرے مسلمان نے رمضان کے روزے تیس سے چالیس کر دیے۔

ویسے تو فلم کی دنیا کے زیادہ تر لوگ دہریے ہی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شادیاں دوسرے مذاہب میں کرنا یا دوسرے مذاہب کے لوگوں کو گرل فرینڈ بوائے فرینڈ بنانا انہیں معیوب نہیں لگتا۔ گلوکارہ نورجہاں کی پوتی ایک ہندو سے شادی کر رہی ہے۔ اس وقت بولی ووڈ کے تمام مسلمان اداکار اس مکسڈ کلچر کا حصہ ہیں اور ہر کوئی اپنے آپ کو مسلمان یا ہندو ہونے کو ثانوی حیثیت دیتا ہے۔ ابھی حال ہی کی بات ہے ہندوستانی اداکار عرفان ہاشمی داتا دربار حاضری دینے گیا تو اسے وضو کرنا پڑ گیا۔ یہ جان کر سب کو حیرانی ہوئی کہ اسے وضو کرنے کا طریقہ ہی نہیں آتا تھا۔

بولی ووڈ کی وساطت سے یہی کلچر اب پاکستان میں بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ فلموں کے بعد اب ٹی وی کے لوگ بھی مذہب سے بیگانگی اختیار کرنے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹی وی کے چینلز پر بحث کرتے ہوئے خصوصی طور پر ہدایت کی جاتی ہے کہ مذہب کو بیچ میں نہ لانا۔ اگر انڈین اور پاکستانی چینلز کی یلغار جاری رہی اور ایک دن گاؤں والوں کو بھی ٹی وی کی سہولت حاصل ہو گئی تو پھر وہ وقت دور نہیں جب پاکستانیوں مسلمانوں کو بھی یہ یاد نہیں رہے گا کہ قرآن کے کتنے سپارے ہوتے ہیں اور رمضان میں کتنے روزے؟