اس دفعہ پاکستان کی سیاست ایک عجیب طرح کے رنگ دکھا رہی ہے۔ چاروں صوبوں میں مختلف پارٹیوں کی حکومتیں ہیں۔ مرکز میں دو سے زیادہ حلیف جماعتیں ہیں اور سب سے بڑی حلیف جماعت پیپلز پارٹی سے دوسری تمام جماعتوں کو شکایات ہیں مگر کوئی بھی حکومت سے علٰیحدہ ہونے کیلیے تیار نہیں ہے۔

آجکل ہر سیاسی پارٹی اس سانپ کی طرح ہے جس کے منہ میں چھپکلی آگئ اب وہ نہ اس کو نگل سکتا ہے اور نہ چھوڑ سکتا ہے۔ یعنی حلیف پارٹیاں اور صدر مشرف سب ایک دوسرے کی شکائتیں بھی لگار رہے ہیں اور ساتھ ساتھ بھی چل رہے ہیں۔

موجودہ سیٹ اپ جس نے بھی ترتیب دیا ہو گا وہ پاکستان کا ذہین ترین اور شاطر انسان ہو گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بیرونی جمہوری حکومتوں کا نمائندہ ہو۔ کیونکہ اس سیٹ اپ سے سبھی کے مفادات ایک دوسرے سے وابسطہ ہیں۔ مسلم لیگ ن اس لیے حکومت کیساتھ چپکی ہوئی ہے کہ اس کی علٰیحدگی کی صورت میں صدر مشرف کو براہ راست فائدہ پہنچ سکتا ہے اور دوسرے مسلم لیگ ق بھی طاق لگائے بیٹھی ہے کہ ادھر مسلم لیگ ن حکومت سے الگ ہو اور ادھر وہ پیپلزپارٹی کی اتحادی بن کر حکومت میں شامل ہو جائے۔

پیپلزپارٹی صدر مشرف کو ہٹانے میں اسلیے دیر کر رہی ہے کہ ان کے ہٹائے جانے کی صورت میں مسلم لیگ ن کے سر سے خطرہ ٹل جائے گا اور دوسرے مسلم لیگ ق کے اراکین مسلم لیگ ن میں شامل ہو کر پیپلزپارٹی کی حکومت کیلیے خطرہ بن جائیں گے۔

پیپلز پارٹی ججوں کو بھی بحال کرنے سے کترا رہی ہے کیونکہ اسے این آر او کے کینسل ہونے کا خطرہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ دوسری جماعتیں بھی ججوں کی بحالی پر دل سے راضی نہیں ہیں کیونکہ کوئی بھی پاکستانی سیاستدان عدلیہ کو آزاد کر کے اپنے لیے مصیبت نہیں بنانا چاہتا۔

اے این پی کی مرضی کے بغیر سرحد کے قبائلی علاقوں میں آپریشن شروع کیا گیا اور صوبہ سرحد میں بھی تبادلے اور تقرریاں ان کی مرضی کے بغیر کی جارہی ہیں اے این پی سوائے زبانی کلامی احتجاج کے کوئی موثر قدم نہیں اٹھا رہی۔ یہی حال مولانا فضل الرحمان کا ہے۔ سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے پر انہیں سخت اعتراض ہے۔ قبائلی علاقوں پر چڑھائی بھی انہیں منظور نہیں مگر حکومت سے علٰیحدہ ہونے کو بھی ان کا دل نہیں چاہتا۔

ایم کیو ایم کراچی میں تاریخ کی بدترین لوڈشیڈنگ کے باوجود آرام سے حکومت میں بیٹھی ہوئی ہے۔ ابھی چند روز قبل میئر کراچی نے صدرمشرف کی موجودگی میں پیپلز پارٹی کی خوب خبر لی۔ حالانکہ بعد میں ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ میئر کے خیالات ان کی ترجمانی نہیں کرتے۔ لیکن پیپلز پارٹی نے یہ زہر بھی وقتی طور پر پی لیا ہے اور دونوں پارٹیوں میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا۔

دراصل موجودہ سیٹ اپ میں تمام پارٹیاں اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا ووٹ بینک قائم رکھنے کیلیے ایک دوسرے کیخلاف بیانات بھی دے رہی ہیں اور اکٹھی بھی ہیں۔  ان حالات سے تو یہی لگتا ہے کہ حکومتی پارٹیوں کے کسی گورے مشیر نے بڑے کام کی بات گوش گزاری کر دی ہے اور وہ ہے عوام کی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے رہنا۔ اب ملک میں یہ رواج عام ہو چکا ہے کہ حال سے فائدہ اٹھاؤ اور مستقبل کے خطرات کو بھول جاؤ۔ یہی وجہ ہے موجودہ حکومتی حلیف پارٹیاں حال سے فائدہ اٹھا کر پانچ سال کیلیے موج کرنا چاہتی ہیں۔ انہیں اس بات کی فکر نہیں کہ اگلے انتخابات میں عوام انہیں ووٹ دیتے ہیں یا نہیں۔

ویسے حیرانی عوام پر بھی ہے کہ وہ تاریخی لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے عذاب کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں۔ چلو پارٹیاں تو اپنے مفادات کی وجہ سے ڈنگ ٹپا رہی ہیں مگر عوام کیوں خاموش ہیں یہ معمہ اپنی سمجھ سے باہر ہے۔