آجکل جدھر دیکھو ایک ہی رٹ لگی ہوئی ہے کہ ہمارا فلاں رشتہ دار یا دوست قابل ہوتے ہوئے بھی ہماری مدد نہیں کر رہا۔ کسی کو ادھار نہ دینے کا گلہ ہے تو کسی کو ادھار دیا واپس مانگنے پر اعتراض ہے۔ اب مادیت پرستی اتنی عام ہو چکی ہے کہ لوگ سرعام کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ چھوڑو فلاں کو وہ ہمارے کس کام آئے گا یا ہمیں کیا دے گا۔ وہ تو غریب شتہ داروں کو لفٹ ہی نہیں کراتا۔

ہم اس نفسا نفسی کے دور میں مادی وسائل کے حصول میں اتنے پاگل ہوتے جا رہے ہیں کہ اپنے پرائے کا فرق بھی بھول چکے ہیں۔ اب بہن بھائی کا رشتہ بھی صرف لین دین کی حد تک رہ گیا ہے۔ کسی دن اگر آپ مجبوری کی وجہ سے اپنے بہن بھائی کی مدد نہ کرسکے تو پھر آپ کا پچھلا کیا کرایا بھی ضائع ہو جاتا ہے۔

آجکل گلے کچھ اس طرح کے کئے جاتے ہیں۔ وہ ہمارے گھر خالی ہاتھ آیا۔ اس نے ہمیں شادی پر نہیں بلایا، وہ چھوٹے موٹے لوگوں کو لفٹ نہیں کرتا، اس نے رشتہ لینے سے انکار کردیا، وہ برے وقت میں ہمارا حال تک نہیں پوچھتا، اس نے ادھار دینے سے انکار کر دیا، وغیرہ وغیرہ۔ ہم جب یہ گلے کر رہے ہوتے ہیں تو اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرتے اور یہ نہیں سوچتے کہ ہمارا رویہ دوسروں کے ساتھ کیسا ہوتا ہے۔ جب ہم پر اچھا وقت تھا تو ہم نے کتنوں کا بھلا کیا۔ دوسرے اس بات کا بھی خیال نہیں کرتے کہ دوسرے کی بھی مجبوریاں ہوں گی۔ ہمیں اس بات کی پرواہ نہیں کہ دوسرے کے کیا مسائل ہیں، ہمیں تو بس ایسا رشتہ دار چاہیے جو گھر بیٹھے ہمارا گھر بھر جائے اور اس کے بدلے میں ہمیں کچھ بھی نہ دینا پڑے۔

فی زمانہ اچھے دوست اور رشتہ دار اسی طرح گنے چنے رہ گئے ہیں جس طرح پرانے وقتوں میں ایک آدھ رشتہ دار شرارتی ہوا کرتا تھا۔ اب تو جس رشتہ داری کے گھر کی جس اینٹ کو اٹھاؤ اس کے نیچے غرض مند چھپا ہوا ہو گا جو آپ کو دیکھتے ہی یا تو ادھار مانگ لے گا یہ کوئی نہ کوئی سوال کر ڈالے گا۔

ہم نے اپنے والدین کا زمانہ دیکھا ہے جب وہ اپنے بہن بھائیوں کے درمیان گھل مل جایا کرتے تھے۔ وہ ساری ساری رات جاگ کر پرانے واقعات بیان کیا کرنے اور کسی کو اپنی مصیبت کے بارے میں ہوا تک نہ لگنے دیتے۔ اکثر کسی بہن بھائی کے دکھ درد کا پتہ دوسرے بہن بھائیوں سے معلوم ہوا کرتا تھا۔ سب نے روکھی سوکھی ملکر کھا لینی اور کبھی یہ گلہ نہ کرنا کہ ہمیں کھانا اچھا نہیں ملا۔

اب آپ اپنے رشتہ دار کی اپنی مجبوری کی وجہ سے ایک دفعہ خدمت نہ کر پائیں تو منہ موٹا کر لیتا ہے۔ اب ہم میں مروت اور رواداری کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ہم میں صبر ختم ہو چکا ہے ۔ ہم کسی کی زیادتی یا بری بات کا جواب فی الفور دے دیتے ہیں اور کسی دوسرے وقت کا اتنظار نہیں کرتے۔ ایک وقت تھا لوگ کسی کے دیے ہوئے برے کپڑے تب تک سنبھال کر رکھا کرتے تھے جب تک اس کے گھر شادی نہیں ہوتی تھی۔ پھر وہی کپڑے اس کی شادی پر دے دیا کرتے تھے۔ اب ادھر آپ کا دیا ہوا رشتے دار کو پسند نہیں آیا اور ادھر اس نے دے آپ کے منہ پر مارا۔

ہماری نظر میں اس نفسی نفسی اور مادیت پرستی کی وجہ ہماری تربیت میں کمی ہے۔ نہ ہمارے سکولوں میں ایسی تربیت کا بندوبست ہے جس کے سہارے اچھے افراد معاشرے کی پہچان بنیں اور نہ ہم لوگ خود اپنے بچوں کی تربیت اچھے انداز سے کر رہے ہیں۔ دراصل تنگ دستی یا زیادہ کمانے کے چکر میں ہم اپنی اولاد کی تربیت سے غافل ہو چکے ہیں۔ رہی سہی کسر میڈیا پوری کر رہا ہے۔ میڈیا پر بھی اس وقت معاشرے کی تربیت کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ میڈیا تو اب اپنا کاروبار چمکانے کیلیے سر پٹ دوڑ رہا ہے۔ اسے یہ پرواہ نہیں ہے کہ اس کی دوڑ کی وجہ سے دوسرے لوگ ڈسٹرب ہو رہے ہیں۔ حکومت نے بھی جان بوجھ کر عوام کی تربیت سے ہاتھ کھینچ رکھا ہے تا کہ اس کے آقاؤں کو یہ بات ناگوار نہ گزرے۔