اس کو سادگی سمجھیں یا توہم پرستی، غریب لوگ لاعلاج بیماریوں کے علاج کیلیے طرح طرح کے ٹونے ٹوٹکے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی شوگر کے علاج کیلیے دم کراکے انگور کھا رہا ہوتا ہے تو کوئی کینسر کیلیے حکما کی چوکھٹ پر پڑا ہوتا ہے۔ کوئِی بلڈ پریشر کے علاج کیلیے تعویز گنڈے کرا رہا ہوتا ہے تو کوئی ہیپاٹائٹس کیلیے ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھا ہوتا ہے۔ اس تصویر کو دیکھیں والدین نے پولیو کی مریض بچی کو سورج گرہن والے دن زمین میں گاڑ دکھا ہے۔

ہمیں یاد ہے جب ہماری کار گم ہوئی تو ہم نے بھی عزیزوں دوستوں کے کہنے پر ایک دو کھوجیوں کے ہاں شغلاً حاضری دی۔ ایک جگہ ہم گئے تو شاہ صاحب نے پرچی لکھ کر ہمارے سامنے زمین پر پھینک دی اور پھر ہم سے سوالات پوچھنے شروع کر دیے اور ساتھ ساتھ زائچے بنا کر ہمیں دکھاتا رہا۔ اس کے بعد اس نے پرچی اٹھا کر پڑھی تو اس میں وہی کچھ لکھا تھا جو ہم نے اسے بتایا تھا۔ قصہ مختصر اس نے ہمیں خوب بیوقوف بنایا اور بھلے وقتوں میں ہم سے دو سو روپے ہتھیا لیے۔

ہمارے ایک عزیز جو تعویذ گنڈے کو بالکل نہیں مانتے تھے کو ہیپاٹائٹس سی ہو گیا اور جب ڈاکٹروں نے انہیں لاعلاج قرار دے دیا تو پھر پیروں فقیروں کے درباروں میں حاضری دینے لگے اور خوب مال لٹایا۔ جب آخری وقت آیا تو پھر سی ایم ایچ داخل ہو گئے اور وہیں وفات پائی۔

پاکستان کی زیادہ تر آبادی انپڑھ اور دیہات میں رہتی ہے اور غریب بھی ہے۔ غربت کی وجہ سے وہ لوگ نیم حکیموں اور جعلی پیروں فقیروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور پیسہ ضائع کرتے ہیں۔ ہم یقین سے کہتے ہیں کہ اگر ان لوگوں کے پاس پیسہ ہو تو یہ بڑے ہسپتالوں میں ہی جائیں۔

جعلی پیروں فقیروں کا دوسرا ٹارگٹ وہ لوگ ہوتے ہیں جو شارکٹ ڈھونڈتے ہیں اور محنت سے دور بھاگتے ہیں۔ وہ کبھِی کسی سے باہر جانے کیلیے تعویذ لیتے ہیں تو کبھی پاس ہونے کیلیے پیرصاحب سے دوا کراتے ہیں، کبھِی کام ہو جانے کی منت مانتے ہیں اور ڈھول بجاتے پیر کے آستانے پر حاضری دیتے ہیں۔

جعلی پیروں اور تعویذ گنڈے والوں کا تیسرا شکار حاسد لوگ ہوتے ہیں جو کسی کو ترقی کرتا دیکھ نہیں سکتے اور جعلی پیروں فقیروں سے جادو کرا کے شریکوں کو نقصان پہنچانے کے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ ان حاسدوں میں بہت بڑی تعداد ساس بہو کی بھِی ہوتی ہے جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلیے  اور بیٹے اور خاوند پر قبضہ کرنے کیلیے جادو ٹونے کے چکروں میں پڑ کر جعلسازوں کی چاندی کرا دیتی ہیں۔ ایک دفعہ ہماری ایک عزیزہ نے اپنی والدہ کیلیے تعویز لیے اور دوسری دفعہ جب وہ اپنی والدہ کیساتھ دوبارہ جعلی پیر کے پاس حاضر ہوئی تو اس نے پوچھا “پچھلی دفعہ جو تم نے اپنی ماں کو رام کرنے کیلیے تعویز لیا تھا اس کا کچھ اثر ہوا کہ نہیں”۔ یہ سن کر ہماری عزیزہ شرم سے پانی پانی ہو گئی۔

ہم لوگ واقعی سادے ہیں جو جانتے ہوئے بھی توہم پرستی کا  شکار ہو جاتے ہیں۔ کبھی رقم دگنی کرنے والا ہمیں لوٹ لیتا ہے تو کبھی تعویذ دھاگہ کرنے والا۔ انہی سادہ لوح لوگوں کی وجہ سے طوطا قسمت والا بھی روزی روٹی کما رہا ہوتا ہے۔

لیکن اب وقت بڑی تیزی سے بدل رہا ہے اور میڈیا کی یلغار معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی لانے جا رہی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب طوطا نجومی، جعلی پیر فقیر اور جادو ٹونا کرنے والوں کے کاروبار بند ہو جائیں گے۔