صدر مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہو رہا ہے اور ان کے دوست احباب ایک ایک کر کے انہیں چھوڑتے جارہے ہیں۔ ان کو اتنی تیزی سے تنہا کیا جا رہا ہے کہ سب سے پہلے کس نے انہیں چھوڑا اب جاننا مشکل ہے۔ ایک دن شیخ رشید کہتے ہیں نمبرگیم کامیاب نہیں ہو گی مگر دوسرے دن ہی وہ صدر مشرف کو مشورہ دیتے ہیں کہ اب کرسی چھوڑنا ہی ان کیلیے مناسب ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ کے فارورڈ بلاک والے انہیں دو دفعہ منتخب کرنے پر شرمندہ ہیں اور اب ان کے مواخذے کیلیے آستینیں چڑھا رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں تو ایسے لوٹوں کے پیندے کاٹ دینے چاہییں تھے مگر کیا کیا جائے پاکستانی سیاست نام ہی ضمیر فروشوں کی آبیاری کا ہے۔

لگتا ہے صدر مشرف سے آج امریکی سفیر مس پیٹرسن نے ملاقات کر کے ان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا ہے۔ اب جنرل مشرف جتنی دیر کریں گے ان کو اس سودے میں اتنا ہی گھاٹا پڑے گا اور کرسی چھوڑنے کے بدلے جو اب مل سکتا ہے اس سے کہیں کم ملے گا۔

ایک ایم کیو ایم بچی ہے جو ابھی تک مواخذے کے حق میں نہیں ہے مگر مسلم لیگ کے رہنما سعد رفیق کے بقول ایم کیو ایم کبھِی بھِی صدر مشرف کی حمایت نہیں کرے گی کیونکہ اس نے مشکل وقت میں اپنے حلیفوں کا ساتھ دینا کبھِی سیکھا ہی نہیں۔

آفرین ہے چوہدریوں پر جو لوٹوں کا ہراول دستہ ہونے کے باوجود صدر مشرف کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں حالانکہ انہیں بھی معلوم ہو چکا ہے کہ اب صدر مشرف کا جانا ٹھر چکا ہے۔ شوکت عزیز اپنے ملک واپس جا چکے ہیں، آفتاب شیرپاؤ نے مواخذے کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے، محمد علی درانی صاحب کی کوئی خبر نہیں ہے، وصی ظفر اور ڈاکٹر شیرافگن کے دیگ جتنے منہ سکڑ کر دیگچی بن چکے ہیں۔ جس فوج پر صدر مشرف نے ساری عمر تکیہ کیا وہ بھِی اب ان کیخلاف بھڑکی آگ کو بجھانے سے کترا رہی ہے۔

اس وقت صدر مشرف غم ہلکا کرنے کیلیے دن رات جام پہ جام چڑھا رہے ہوں گے اور اپنے ہیرو اتاترک کے ملک میں پناہ لینے کیلیے بوریا بستر باندھ رہے ہوں گے۔ اگر مشکل کی گھڑی میں ان کے ساتھ کوئی ملک بدر ہوا تو وہ ان کے وفادار کتے ہوں گے جن کیساتھ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی تصاویر اتروائی تھیں۔

وقت کا پہیہ ایسے اپنا چکر پورا کرلے گا صدر مشرف نے کبھِی سوچا بھِی نہ ہو گا۔ آٹھ سال قبل جن کو انہوں نے ملک بدر کیا آج وہی انہیں ملک بدر کر رہے ہیں اور جن لوگوں نے صدر مشرف کے دور میں بے پناہ مفادات حاصل کیلیے وہ انہیں دور سے رسوا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

باغبان نے جب آگ دی آشیانے کو میرے

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے