یہ اشرف المخلوقات کی گھٹي ميں ہے کہ وہ دوسروں پر حاکم ہو اور ساری دنیا اس کی غلام ہو۔ ہم اگر اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر قسم کے مطلق العنان نظر آئیں گے۔ اپنے گھر میں دیکھیں کوئی نہ کوئی اپنی من مانی کر رہا ہوگا۔ اسی طرح محلے میں چوہدری، شاہ جي یا بدمعاش ہوگا جس کے کہنےپر سارا محلہ یک زبان ہو کر تسلیم بجا لاۓ گا۔ اس سے تھوڑا اوپر دیکھیں تو شہروں میں آپ کو لوگ ملیں گے جو ہر طرح کا رعب اور لالچ دے کر آپ کی مرضی پر مسلط ہوں گے۔
سرکاری ملازموں کے طور طریقے بھی کچھ مختلف نہیں اور وہ بھی چپڑاسی سے لیکر افسر تک اپنے دفتر میں بادشاہ ہوں گے اور عوام کو گھنٹوں اپنے دفتر سے باہر بٹھا کر اپنی روح کو تسکین پہنچاہتے رہیں گے۔
پھر صوبائی اور وفاقی لیول پر ہمارے حاکم مطلق العنانی کے زور پر ہمارے ہی ووٹوں سے ناخدا بن بیٹھیں گے اور ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح آگے لگاۓ رکھیں گے۔
اس سے ذرا اوپر اگر دیکھیں تو سپر پاور بھی وہی کچھ کر رہی ہیں جو غریب ملکوں کے ڈکٹیٹر کر رہے ہیں۔ جب سے روس کا بستر گول ہوا ہے دنیامیں ایک ہی سپر پاور ہے جو اب کسی کی پرواہ کۓ بغیر ہر فیصلہ اپنی مرضی کا دنيا پر ٹھونس رہی ہے۔ اگر اس سے کوئی غلطی ہو بھي جاتی ہے تو معزرت کی بجاۓ اس کو ضحیح ثابت کرنے کیلۓ دلیلوں پہ اتر آتی ہے۔ اس مطلق العنانی یا ڈکٹیٹرشپ کو ہم عالمی ڈکٹیٹرشپ کہ سکتے ہيں۔
جب سے اس عالمی ڈکٹیٹرشپ نے صرف اپنے فائدے کیلۓ دنیا کو جہنم بنانا شروع کیا ہے تب سے لوگوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ طاقت کا توازن ہونا بہت ضروری ہے۔ یہی اصول دنیا کی بڑی بڑی مشہور شخصیات نے وضح کیا ہے اور یہی اصول دنیا کے ہر مزہب کی کتاب میں بیان ہوا ہے۔
اگر طاقت کا توازن نہیں ہو گا تو پھر زمین اپنے مرکز سے ہٹ جاۓ گی، جنگل سے جانور غائب ہو جائیں گے اور دنیا میں قیامت سے پہلے قیامت برپا ہو جاۓ گی۔ یہی توازن ہے جو انسان کے جسم کو صحتمند رکھتا ہے اور اس کے نظام کو سو سال تک متواتر بحال رکھتا ہے۔ یہی توازن دنیا کا سارا شمسی نظام چلاۓ جارہا ہے اور اگر کسی دن یہ توازن بگڑ گیا تو دنیا تباہ ہو جاۓ گی۔
اسی طرح مطلق العنانی کے مضر اثرات سے بچنے کیلۓ طاقت کا توازن ضروری ہے۔
اس توازن کو بگاڑنے میں ہمارا بھی ہاتھ ہے جب ہم نے ایک سپر پاور کے اشارے پر دوسری سپر پاور کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ پھر جب ہم سمجھنے لگے کہ یہ سب کچھ ہم نے کیا ہے تو ہمیں اس سپر پاور نے انارکی سے دوچار کردیا۔ اس کے بعد دہشت گردي نے ميدان مار ليا اور تب سے ہم اس سپر پاور کے کہنے پر لوگوں کو مار رہے۔
اب ہم اگر دنیا کا سکون واپس لانا چاہتے ہیں تو دنيا کو اس سپر پاور کے مقابلے میں ایک اور سپر پاور کھڑی کرنی ہوگی وگرنہ ہم يوں ہي بھیڑ بکریوں کی طرح دنیا میں ہانکے جاتے رہیںگے۔