تازہ خبر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے آصف زرداری کا نام صدارت کیلیے تجویز کیا ہے اور آصف زرداری نے سوچنے کیلیے چوبیس گھنٹے مانگے ہیں۔ ہمارے ذہن میں دو تین قسم کے خیالات گھوم رہے ہیں جو ہم قارئین کے ساتھ شیئر کریں گے اور ان کی رائے پوچھیں گے۔

اگر آصف زرداری صدر بن گئے تو پھر ہو سکتا ہے صدر کے اختیارات جوں کے توں رہیں اور طاقت ایک ہاتھ میں چلی جائے۔ یہی بیرونی جمہوری طاقتوں کی مرضی ہے یعنی اسمبلی کی بجائے ایک ہی شخص سے ڈیل کی جائے۔ اس صورت میں کوئی آئینی ترمیم نہیں کی جائے گی۔

اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے آئین کو پارلیمانی بنانے کیلیے اس میں ترمیم کرنے کا پکا ارادہ کر رکھا ہے تو پھر آصف زرداری صدر نہیں بنیں گے اور وہ کسی فضل الہی کی طرح کے آدمی کو صدارت کی کرسی پر بٹھا دیں گے تا کہ پارلیمانی نظام میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ اور وہ فاروق لغاری کی طرح اپنی ہی حکومت کی بساط نہ لپیٹ سکے۔

اگر دوسری صورت بنی تو پھر صدر کسی عورت کو بھی بنایا جا سکتا ہے تا کہ یورپ کو پاکستانی روشن خیالی اور اعتدال پسندی دکھائی جا سکے۔

اگر حکومت آئین میں ترمیم کرنا نہیں چاہتی تو پھر وہ کسی ایماندار اور قوم پرست آدمی کو صدر نہیں بنائے گی کیونکہ وہ اس کی راست بازی سے اپنی حکمرانی میں رکاوٹ پیدا نہیں کرنا چاہتی۔ اگر حکومت آئین میں ترمیم کرنا چاہتی ہے تو پھر ہمارے خیال میں اس وقت صدارت کیلیے سب سے موزوں امیدوار سابق جج بھگوان داس ہیں۔ ان کی تقرری سے ایک تیر سے دو شکار ہوں گے۔ پاکستان کی روشن خیالی کی دھاک بھی بیٹھ جائے گی اور اقلیتوں کو برابری کے حقوق کا پروپیگنڈہ بھی کیا جا سکے گا۔

ہو سکتا ہے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو صدر بنانے کا دانہ ڈالا جا رہا ہو لیکن یہ اسی صورت میں ہو گا جب آئین سے صدارتی اخیتارات ختم کر دیے جائیں گے۔ لیکن اس صورت میں شاید چیف جسٹس افتخار چوہدری صدارت قبول نہیں کریں گے۔

عطااللہ مینگل اور اسفند یار ولی کے صدر بننے کے چانسز کم ہیں کیونکہ حکومتی پارٹی کسی نر آدمی کو صدر نہیں بنانا چاہے گی۔ اس لیے امید یہی ہے کہ آئین کی تبدیلی کی صورت میں کسی عورت کو قربانی کا بقرہ بنایا جائے گا یا پھر موجودہ صدارتی اختیارات کیساتھ آصف زرداری صاحب کو صدر بنا دیا جائے گا۔