اس تصویر کو دیکھ کر ہمیں بہادر شاہ ظفر کا زمانہ یاد آ گیا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنے قدم جمائے اور مغل شہنشاہ نے انہیں اپنے دربار میں جگہ دی۔ وہ بھی دیکھنے کو شہنشاہ تھا مگر گوروں کا غلام بن چکا تھا۔ اس غلامی کی وجہ بھِی اسی تصویر سے نظر آ رہی ہے۔ گوروں کو دیکھیں ہر کوئی کاغذ پینسل لئے اپنے کام میں مشغول ہے اور پاکستانیوں کو دیکھئے ہاتھ باندھے با ادب بیٹھے ہوئے ہیں جیسے وہ سارے کام نپٹا چکے ہیں۔ یہ بھِی ہو سکتا ہے کہ گورے احکامات کی لسٹ بنا رہے ہوں اور پاکستانی ان احکامات پر عمل کرنے کی فکر میں مبتلا ہوں۔ گورے مطالبات کی وہی لسٹ تیار کر رہے ہیں جو بعد میں غلاموں کے ہاتھوں میں تھما دی جائے گی اور وہ ایک دوسرے سے سبقت لینے کے چکر میں ملک کی درگت بناتے جائیں گے۔

مشیرداخلہ کی تصویر سے ایسے لگتا ہے کہ وہ اشاروں سے گوروں کو بتا رہے ہوں کہ ان سب کو میں ہی آپ کی خدمت میں لایا ہوں۔

جنرل کیانی بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں جیسے وہ اپنے عہدے کی قیمت چکانے کی فکر میں مبتلا ہوں۔ وہ کن انکھیوں سے یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گورو چند دن تک تو میری بڑھک کی دہشت قائم رہنے دیتے۔

اس میٹنگ میں صدر بش کی حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی کرائے جانے کے شواہد تو نظر نہیں آ رہے مگر پاکستانیوں نے یہ بیان داغ کر اپنے لیے مزید خفت خرید لی کیونکہ اس سے اگلے ہی روز گوروں کے پریڈیٹرز نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میزائلوں سے پھر حملہ کر دیا۔