وہ ایک اعلی عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب تو ہو جائیں گے مگر اس پر عزت و وقار کیساتھ قائم رہنا مشکل نظر آتا ہے

وہ ہمیشہ زیادہ سے زہادہ طاقت کے خواہاں رہیں گے ان کا رویہ پارٹی اور حکومت کے اندر بھی جارہانہ اور مکمل کنٹرول پر مشتمل ہو گا- ایسے افراد بلا شرکت غیرے قیادت کے قائل ہوتے ہیں

وہ سیاسی امور کے ماہر ہیں اور ان کی سیاسی حکمت عملی ہر روز ان کے مخالفین کو ایک نیا روپ دکھائے گی

وہ عہدہ اور معاہدوں میں کمزوری دکھا سکتے ہیں۔ ان کی شراکت اور اتحاد کبھِی طویل المیعاد نہیں ہوں گے اور ان کی راہیں اپنے اتحادیوں سے جلد جدا ہو جائیں گی۔ بلآخر عوام میں غیرمقبولیت بھی نظر آتی ہے۔

آصف زرداری کو اپنا ظاہری امیج عوام میں بہتر کرنے کیلیے بہت محنت کرنا ہو گی ورنہ ان کی شہرت داغدار ہو سکتی ہے۔

ذہنی دباو، ڈیپریشن اور طبیعت میں حد سے زیادہ اشتعال جیسی حالتوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ وہ ذہنی علاج معالجے کی طرف بھِی رجوع کریں گے اور اس کی وجہ سے  سیکنڈل کا شکار بھِی سکتے ہیں۔ شوگر کے مرض کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کو کمر کی تکلیف بھی ہو سکتی ہے۔

اپنے فرزند سے دوری بھی نظر آتی ہے۔ بچوں کی طرف سے بھی پریشانی دیکھنی پڑ سکتی ہے۔

آصف علی زردای قانون میں کئی تبدیلیاں کرِیں گے

عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے انہیں مکمل سپورٹ ملنے کے اثرات کم ہیں

وہ عالمی پائے کے سیاستدان مانے جائیں گے اور ان کی شہرت بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کر جائے گی۔

اپنی تمام پالیسیوں میں رازداری سے کام لیں گے اور اتحادی تو دور کی بات ان کے قریبی ساتھی بھِی ان کی چالوں کو پیشگی نہیں جان سکیں گے۔

ایسا مشکل نظر آتا ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کر پائیں

وہ اپنی پالیسیوں میں طاقت کا زیادہ استعمال کریں گے

اسے سیاستدان یا تو دوران اقتدار موت کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر ان کی موت حادثاتی ہوتی ہے۔ انہیں اپنی صحت و سلامتی کی اشد ضرورت ہے

آصف علی زرداری کے فوج کیساتھ تعلقات زیادہ عرصہ خوشگوار نہیں رہیں گے۔ اپنی جارحانہ طبیعت کے باعث ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک سرد جنگ کا امکان ہے جو جلد عیاں ہو جائے گی۔ وہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنے کنٹرول میں رکھتے نظر نہیں آتے مگر وہ انہیں کنٹرول کرنے کیلیے کوئی انتہائی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ انہیں اندازے سے قبل سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس میں فوج، عدلیہ اور میڈیا اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

انہیں میڈیا کی مخالفت کا بھِی سامنا کرنا پڑے گا۔ سابق حکمران مملکت کی طرح وکلا اور میڈیا کی مخالفت بھی اچانک بھڑک اٹھے گی

اگلا سال مشکلات اور پریشانیوں کا سال ہو سکتا ہے۔ جنوری 2009 سے معاملات ان کی گرفت سے باہر ہونا شروع ہو جائیں گے

اتحادی بھِی ساتھ چھوڑنے لگیں گے اور پارٹی میں بھی ٹوٹ پھوٹ اور مخالفت کا امکان ہے۔ ہو سکتا ہے وہ اشتعال میں آ کر کوئی انتہائی فیصلہ کریں جس سے انہیں پرہیز کرنا ہو گا۔

اگر وہ 2009 آسانی سے پار کر گئے تو پھر ان کا اقتدار طویل ہو سکتا ہے۔

یہ زائچہ روزنامہ خبریں نے ماہنامہ آئینہ قسمت سے ماخوذ کر کے چھاپا ہے۔