فیشن کی دنیا بھی کیا چیز ہے ہر سال کپڑوں کے ڈیزائن بدلنا اس دنیا کی عا دت ہے۔ فیشن ڈیزائینر وہ شخض ہے جس کی سوچ معاشرے کی روایات کا تعین کرتی ہے۔آجکل دور چونکہ روشن خیالی کا ہے اسلۓ فیشن ڈیزائنروں کے بھی مزے ہیں۔ انہیں فکر نہیں کہ ہماری ثقافت کیا کہتی ہے اور ہمارے دین کی ہم سے کیا توقعات ہیں۔

 زیادہ تر فیشن پہلے فلموں سے شروع ہوتے ہیں پھر امرا ان کو اپناتے ہیں اور آخر میں غریب لوگ اس دوڑ میں شامل ہو کر اپنے بجٹ کا ستیا ناس کر لیتے ہیں۔ اب کچھ عرصہ سے فلمی دنیا کچھ زیادہ ہی کمرشل ہو چکی ہے اور فلمساز ہر طرح سے پیسہ بنانے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری فلاپ ہونے کے بعد انڈیا کی فلمیں اب فیشن کا منبع بنی ہوئی  ہیں۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلموں میں جہاں پہلے صرف کلب ڈانس کیلۓ تنگ اور مختصر کپڑے پہناۓ جاتے تھے وہاں اب فلم کی ہیروئین کو مختصر لباس میں دکھانے کا رواج عام ہوچکا ہے۔

کچھ عرصہ سے پاکستانی معاشرے نے بھی اس کی تقلید شروع کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہماری بہو بیٹیوں اور بہنوں کی چولیاں چھوٹی ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ جس طرح قمیض کے بازو گھٹتے گھٹتےغائب ہوۓ اب اسی طرح قمیض بھی نیچے سے سکڑنے لگی ہے۔ اگر یہی رفتار رہی تو جلد ہی خواتین کا تن بدن نظر آنا شروع ہو جاۓ گا۔ اس کے ساتھ ساتھ شلوارکا سفر بھی اوپر کی طرف شروع ہو چکا ہے اوریہت جلدچھوٹی ہو کر گھٹنوں تک پہنچنے ہی والی ہے۔

اگر دیکھا جاۓ تو اب ہم انگریزی لباس کی تقلید کچھ زیادہ ہی کرنے کرنے لگے ہیں۔ قمیض اور شلوار کا سکڑنا اسی بات کی نشاندہی کرتا ہے۔ یورپ ميں جو منی سکرٹ کا رواج ہے وہ اب شلوار قمیض کو چھوٹا کرکے اپنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پہلے تو یہ ہوتا آيا ہے کہ کبھی کپڑے چھوٹے ہوگۓ اور کبھی بڑے۔ کبھی تنگ ہوگۓ تو کبھی کھلے۔ مگر اب اس بات کی امید کم ہے کہ قمیض کبھی دوبارہ لمبی پہننے کا رواج واپس لوٹے گا۔ جب مرد گلوں میں دوپٹے لٹکانے لگیں تو عورتوں کے دوپٹےغائب ہوں گے ہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دفعہ لباس کا مختصرہونا کہاں پر رکتا ہے۔

ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ دنیا کے سارے لباسوں کی تقلید کیجۓ مگر یورپ کی طرح عورت کو صرف زییائش کی چیز مت بنایۓ۔ عورت کو فیشں کرنے دیں مگر حیا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنے دیں تاکہ وہ آپ کی آنے والی نسلوں کی صیحح تربیت کر سکے۔