آج کل ساری دنیا معاشی بحران کا شکار ہے اور  حتٰی کہ جی سیون اور جی ٹونٹی ممالک نے بھی اپنے اجلاس بلا کر اس معاشی بحران سے نپٹنے کیلیے انتہائی اہم اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر بش جو دو ماہ کے مہمان ہیں وہ بھی اس بحران کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یعنی فی الحال ساری دنیا دہشت گردی کیخلاف جنگ کو بھول کر اپنے معاشی حالات کے بگاڑ کی فکر میں لگ گئی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک بھی دنیا کو اس معاشی بحران سے نکالنے کیلیے میدان میں کود چکے ہیں۔

مگر ایک ہماری حکومت ہے جس کو معاشی بحران کا خطرہ نظر ہی نہیں آ رہا اور یہی وجہ ہے کہ حکومت اب بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں دوسروں کی چھیڑی ہوئی دہشت گردی کی جنگ کو جاری رکھنے کا جواز فراہم کرنے کیلیے اسمبلی ممبران کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

لوگ دھڑا دھڑ بنکوں سے رقوم نکلوا رہے ہیں، اپنے لاکر خالی کر رہے ہیں، تجارتی خسارہ اپنی انتہاؤن کو چھو رہا ہے، ذرمبادلہ کے ذخائر صرف چند ہفتوں کیلیے رہ گئے ہیں اور ہم اپنی حکومت بچانے اور امداد بحال رکھنے کیلیے قبائلی علاقوں میں آپریشن کو درست قرار دینے  کیلیے ارکان اسمبلی کو بریفنگ دے رہے ہیں۔

ہمیں یہ یاد نہیں کہ جب ملک معاشی بدحالی کا شکار ہو جائے گا تو قبائلی علاقوں کی جنگ پورے ملک میں پھیل جائے گی۔ جب لوگ بھوک سے بلبلانے لگیں گے تو وہ ایک دوسرے کو کھانا شروع کر دیں گے۔ تب نہ کسی کو قبائلی علاقوں کی ہوش رہے گی اور نہ فوج کا احترام باقی رہے گا۔ شاید اسی خطرے کو بھانپ کر ہماری حکومت نے عراق کے گرین زون اور اسرائیل کی فلسطینی علاقوں میں دیوار کی طرز پر اسلام آباد میں بھی اپنے اور عوام کے درمیان ایک دیوار چننے کا ارادہ کر لیا ہے۔ لیکن یہ یاد رہے معاشی بدحالی کے سامنے کوئی دیوار ٹھر نہیں سکتی اور عوام اس دیوار کو یاجوج ماجوج کی طاقت کیساتھ  اس دیوار کو تہس نہس کر کے رکھ دیں گے۔

خدا کیلیے دنیا کے معاشی بحران کو سنجیدگی سے لیجیے اور غیروں کی دہشت گردی کیخلاف جنگ کو جائز قرار دینے کیلیے وقت ضائع کرنے کی بجائے معاشی بحران کو حل کرنے کیلیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایے۔