سلگتا سگریٹ جب ختم ہونے کو آتا ہے تو اسے سگریٹ نوش زمین پر پھینک کر مسل دیتا ہے اور جب کوئی اسے نہیں مسلتا تو پیچھے پیچھے چلنے والا بچہ اسے اٹھا کر اپنے نشے کی تسکین کر لیتا ہے۔ ان سگریٹ کے ٹکڑوں کو یار لوگ ٹوٹے کہتے ہیں۔ ویسے آجکل کے مہنگائی کے دور میں ان ٹوٹوں کی مانگ مزید بڑھ گئی ہو گی اور بچے راہ چلتے سگریٹ نوش سے پہلے ہی ٹوٹا نہ بجھانے کی درخواست کر دیتے ہوں گے۔

نشہ کرنے والے بخوبی اس بچے کی حالت جان سکتے ہیں جو سگریٹ نوش کیساتھ لمبی مسافت طے کرتا ہے اور آخر میں سگریٹ نوش ٹوٹے کو اپنے پاؤں کے نیچے مسل کر بجھا دیتا ہے۔ اس بچے کیلیے سگریٹ نوش نے ٹوٹا نہیں بلکہ اس کے دل پر پاؤں رکھا ہوتا ہے اور وہ دل ہی دل میں اسے کوستا ہوا دوسرا شکار ڈھونڈنا شروع کر دیتا ہے۔

کئی بدمعاش بچے تو اپنے محلے کے معصوم بچوں کو اس طرح ٹوٹے اکٹھے کرنے پر لگا دیتے ہیں جس طرح ایک سکہ بند بدمعاش اپنے کارندوں کو وارداتوں پر بھیجتا ہے اور خود اڈے پر بیٹھا رہتا ہے یا پھر وہ ٹھیکیدار جو اپنے لوگوں کو بھیک مانگنے کیلیے ان کے اڈوں پر روانہ کرتا ہے۔

کچھ بچوں کا گروپ ایسا بھی ہوتا ہے جو اپنے استاد کیلیے بجھے ہوئے ٹوٹے اکٹھے کرتے ہیں اور پھر ان میں سے سب سے لمبے ٹوٹے الگ کر کے انہیں سلگا کر استاد کو پیش کرتے ہیں۔ اگر کسی دن لمبے ٹوٹے نہ ملیں تو وہ تمام ٹوٹوں کو خالی کرکے ان کے تمباکو سے سگریٹ بنا کر استاد کو بھی پلاتے ہیں اور خود بھی پیتے ہیں۔

ان ٹوٹے پینے والوں کی دوستی اسی طرح قابل رشک ہوتی ہے جس طرح جواریوں یا شرابیوں کی۔ یہ لوگ ایک جگہ بیٹھ کر اجتماعی مشقت سے یہ کام انجام دیتے ہیں اور قطرہ قطرہ دریا بننے کے مصداق ٹوٹے ٹوٹے اکٹھے کر کے سگریٹ کی طلب بجھاتے ہیں۔ ان بچوں کی اجتماعی مشقت سے اگر ہم پاکستانی سبق سیکھ سکھیں تو پاکستان کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔

ٹوٹے اکٹھے کرنے کا کاروبار بہت پرانا ہے اور اس کاروبار کی نقل کر کے دوسرے ضرورتمند کئی اور دھندے شروع کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر شاپر بیگ اکٹھے کرنا، شادی ہالوں سے ہڈیاں اکٹھی کرنا، خالی بوتلیں اکٹھی کرنا، ردی کاغذ اکٹھے کرنا وغیرہ وغیرہ۔

ہم نے دیکھا ہے جو والدین کی شفقت سے محروم بچے ٹوٹے اکٹھے کرتے ہیں ان کی زندگی اسی طرح کے دوسرے ٹوٹے اکٹھے کرتے ہی گزر جاتی ہے۔ یہ والدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ اتنے ہی بچے پیدا کریں جتنوں پر وہ نظر رکھ سکتے ہوں۔ ہماری بہت ساری معاشرتی برائیوں کی ایک وجہ اولاد کی کثرت بھی ہے جو بناں اپنی اسطاعت دیکھے دھڑا دھڑ پیدا کی جاتی ہے تا کہ وہ بڑھاپے کا سہارا بنے۔ لیکن اس کوشش میں ہم ایک بات بھول جاتے ہیں کہ ٹوٹے اکٹھے کرنے والی اولاد کبھی سہارا نہیں بنتی۔ سہارا وہی بنے گی جس کی تربیت کیلیے ہمارے پاس وقت اور ذرائع ہوں گے۔